ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے حیوانات اور پودوں کی کئی اقسام خاتمے کے خطرے سے دو چار ہیں لیکن کئی مقامات پر ان کی ’اجنبی اقسام‘ خود ماحول کے لیے بھی خطرہ بنی ہوئی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے بائیو ڈائیورسٹی کنوینشن کے لیے قائم سائنس ایڈوائزری پینل (آئی پی بی ای ایس) نے پیر کو جانوروں اور پودوں کی ایسی انواع کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح مشرقی افریقہ میں پانی میں پایا جانے والا ہائیسنتھ پودا وکٹوریا جھیل کو بند کر رہا ہے۔ اسی طرح بحر الکاہل میں چوہوں اور بھورے سانپوں کی ایک قسم کئی پرندوں کی نسل کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے۔
اپنے اصلی وطن سے دور متنقل ہونے والے مچھر اپنے ساتھ زکا، یلو فیور اور ڈینگی جیسے امراض پھیلانے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ مچھروں کی اقسام کے علاوہ پودوں اور حیوانات کی کئی اقسام ہیں جو اپنے فطری اور قدرتی مسکن سے دور علاقوں میں منتقل ہوئیں اور آج مختلف خطرات کا باعث بن رہی ہیں۔
حیوانات اور پودوں کی ان غیر مقامی اقسام کا اپنے حقیقی علاقوں سے منتقلی کی ذمے داری انسانوں پر عائد ہوتی ہے۔ ان میں سے بعض تو انسان جان بوجھ کر اپنے ساتھ ایک علاقے سے دوسرے جگہ لے گئے اور بعد حادثاتی طور پر منتقل ہوئے۔
سائنس دانوں کے مطابق انسانوں کے ذریعے مختلف حیوانوں اور پودوں کی وسیع پیمانے پر تیزی سے منتقلی کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ ان کے مطابق انسانی نقل و حرکت کے باعث پھیلنے والی ان انواع کی وجہ سے زمین کے فطری نظاموں میں ایسی تبدیلیاں آئی ہیں کہ اس پورے دور کو ’اینتھروپوسین‘ یا ’انسانوں کا عہد‘ کہا جاسکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق حیوانات اور نباتات کی بہت سے اقسام بحری راستوں سے سامان لانے والے جہازوں کے ساتھ آگئیں اور بعض سیاحوں کے ذریعے منتقل ہوئیں۔
تاہم بہت سے انواع جانتے بوجھتے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی گئیں۔
SEE ALSO: فوج کے جاسوس جانور جن کی تربیت پرامریکہ اور روس نے کروڑ وں خرچ کیےخطرہ کیسے پیدا ہوتا ہے؟
روانڈا میں واقع جھیل وکٹوریا کو افریقہ میں پانی کے بڑے ذخائر میں شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہاں ہائسنتھ نسل کے پودے کی پیداوار نے اس کے نوے فی صد علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ پانی میں اس پودے کی غیر معمولی پیداوار کی وجہ سے جھیل کا پانی ٹھہر گیا ہے اور اس میں مچھر پیدا ہو رہے ہیں۔
پودوں کے باعث جھیل میں ماہی گیری اور نقل و حرکت ختم ہو گئی ہے اور اسی طرح اس جھیل میں پائی جانے والی دیگر آبی حیات بھی خاتمے کے خطرے سے دو چار ہیں۔
یہ پودا عام طور پر سجاوٹ کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اسے بیلجیم سے تعلق رکھنے والے حکام 1980 کی دہائی میں وکٹوریا جھیل میں لائے تھے۔
اسی طرح امریکی ریاست فلوریڈا میں ایورگلیڈز نیشنل پارک میں حکام سانپ کی ایک قسم برمی پائیتھون اور واکنگ کیٹ فش کے خاتمے کے لیے کوشش کررہے ہیں۔ یہ سانپ اور مچھلی پہلے پالتو جانوروں کے طور پر اس علاقے میں لائے گئے تھے۔
اسی طرح گھر میں اگائے جانے والی ایک اول فرن نامی بیل اور برازیلین مرچ کے پودے بھی اس علاقے کے ماحول کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں جن کی بیخ کنی کے لیے کام کیا جارہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے مختلف علاقوں میں یہ غیر مقامی یا اجنبی انواع دیگر اقسام کے حیوانات یا پودوں کے خاتمے، عالمی گرماؤ، آلودگی سمیت دیگر ماحولیاتی مسائل کا باعث بن رہی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مغربی مہم جوؤں یا سیاحوں کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی گئی چوہوں، سانپوں اور مچھروں کی کئی اقسام گزشتہ دو صدیوں میں پرندوں کی درجنوں اقسام کے نابود ہونے کا باعث بنی ہیں۔
حال ہی میں امریکی ریاست ہوائی کے علاقے لاہینا کو خاکستر کردینے والی جنگل کی آگ کو بھڑکانے میں گھاس کی بعض ایسی اقسام بھی شامل تھیں جو جانوروں کے چارے کے لیے کسی اور علاقے سے یہاں لاکر کاشت کی گئیں تھیں۔
گزشتہ برس دسمبر میں کینیڈا کے شہر مونٹریال میں بھی ایک عالمی معاہدہ تیار کیا گیا تھا جس میں غیر مقامی یا اجنبی انواع کے حیوانات اور نباتات کے پھیلاؤ کی شرح کو 50 فی صد تک کم کرنے کا ہدف رکھا گیا تھا۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔