افغانستان: داعش پھر سے سابق مضبوط ٹھکانوں پر قابض

فائل

مسائل سے گھرا یہ علاقہ مشرقی صوبہٴ ننگرہار کے اَچین، نازیان، کوٹ اور ہسکہ مینہ کے اضلاع میں واقع ہے، جس کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں

افغانستان کے حکام اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ داعش سے تعلق رکھنے والے لڑاکوں نے ملک میں شدت پسند گروپ کے سابقہ مضبوط ٹھکانوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا ہے، جس سے کچھ ہی ہفتے قبل، کلیدی افغان سکیورٹی کارروائیوں کے نتیجے میں دہشت گردوں نے دور افتادہ سنگلاخ کمین گاہوں سے پسپائی اختیار کر لی تھی۔

مسائل سے گھرا یہ علاقہ مشرقی صوبہٴ ننگرہار کے اَچین، نازیان، کوٹ اور ہسکہ مینہ کے اضلاع میں واقع ہے، جس کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں۔

’وائس آف امریکہ‘ کی افغان سروس کے ایک نامہ نگار نے اس ہفتے اَچین کا سفر کیا، جو ملک میں داعش کا گڑھ رہ چکا ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ سرکاری سلامتی افواج دیگر مقامات کی جانب منتقل ہوگئی ہیں، جب کہ جون میں داعش کے انسداد کی کارروائی ’قہر سیلاب‘ کا آغاز کیا گیا۔

فوج کی علاقائی ترجمان، شیرین آقا نے ’وائس آف امریکہ‘ سے اس بات کی تصدیق کی کہ داعش کے شدت پسند مسائل کے شکار اضلاع کے علاقوں کی جانب واپس آ چکے ہیں۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ افغان فورسز اُنھیں بے دخل کرنے کے لیے تازہ کارروائی کی تیاری کر رہی ہیں۔

علاقے کے قبائلی زعماٴ نے بارہا متنبہ کیا ہے کہ داعش اپنے سابق گڑھ کی جانب پلٹ رہا ہے، جس پر اُنھوں نے افغان حکام پر نکتہ چینی کی ہے کہ وہ سکیورٹی کی مستقل چوکیاں قائم کرنے کی جانب دھیان نہیں دیتے، جب پچھلی کارروائیاں مکمل کی گئی تھیں۔

اہل کاروں کے مطابق، داعش نے گذشتہ سال کے اوائل میں ننگرہار کے 10 اضلاع میں اپنی دہشت گرد سرگرمیاں شروع کیں۔ تاہم، مخالف طالبان کی جانب سے سخت مزاحمت اور امریکی انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں کئی بار ہونے والے ڈروں حملوں کے نتیجے میں یہ شدت پسند کارروائیاں تین یا چار اضلاع تک محدود ہو کر رہ گئیں۔

ملک میں تعینات اعلیٰ امریکی فوجی کمانڈر، جنرل جان نکلسن نے گذشتہ ہفتے توجہ دلاتے ہوئے بتایا کہ جون اور جولائی میں ہونے والی کارروائیاں ’’نہایت کامیاب‘‘ ثابت ہوئیں، چونکہ اِن میں داعش کے علاقائی سربراہ حافظ سعید خان کو ٹھکانے لگایا گیا، ساتھ ہی داعش کے 11 چوٹی کے سرغنے موت کے گھاٹ اتارے گئے، جب کہ اُس کے 25 فی صد لڑاکے ہلاک ہوئے۔

نکلسن نے جمعے کے روز اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’ہمارے اندازے کے مطابق اُن لڑاکوں کی تعداد 1200 یا 1300 ہے۔ اُن کے زیر قبضہ رقبہ (ہمسایہ) صوبہٴ کُنڑ میں ہے۔ تاہم، بنیادی طور پر اِن کا گڑھ صوبہٴ ننگرہار میں ہے‘‘۔

جنرل نے کہا ہے کہ بنیادی طور پر یہ شدت پسند پشتون نسل کے پاکستانی ہیں جو ماضی میں ملک دشمن تحریکِ طالبان پاکستان کا حصہ رہ چکے ہیں، جو داعش کے علاقائی حلقے ہیں جہاں سے وہ ہمسایہ ملک پر حملے کرتے رہے ہیں۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’اُن کا مقصد صوبہٴ خوراسان میں اپنی خلافت کا قیام ہے، جس کا دارلحکومت جلال آباد ہو، جب کہ ننگرہار ُان کی خلافت کا ابتدائی دارلخلافہ ہوگا۔‘‘

داعش نے افغانستان، پاکستان اور ایران کے حصوں کو صوبہٴ خوراسان میں شامل قرار دیا ہے۔

جنرل نکلسن نے اس بات کی تصدیق کی کہ ننگرہار کے شدت پسندوں اور شام میں اصل داعش کے درمیان ’’مالیاتی، قیادت اور حکمت عملی کی نوعیت کے رابطوں‘‘ کے ثبوت موجود ہیں۔

داعش نے پاکستان میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔ تاہم، پاکستان کی فوج نے اس ماہ کے اوائل میں اعلان کیا تھا کہ ملک میں گروپ کے اثر و رسوخ کو ’’معطل‘‘ کرنے کا اقدام کیا گیا ہے۔

فوج کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے اُنھیں پاکستان میں گذشتہ سال شروع ہونے والی کارروائیوں میں مشرق وسطیٰ میں قائم دہشت گرد گروپ سے وابستہ 300 سے زائد شدت پسندوں کو گرفتار کیا ہے، جن میں ان کی کلیدی قیادت شامل ہے۔