افغانستان: امریکن یونیورسٹی پر حملہ، کم از کم 13 ہلاک

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں امریکن یونیورسٹی پر ہوئے حملے میں کم از کم 12 افراد ہلاک ہو گئے اور تقریباً دس گھنٹوں بعد جمعرات کو علی الصبح سکیورٹی فورسز نے یہاں اپنی کارروائی مکمل کر لی۔

افغان حکام کے مطابق اب تک کی معلومات کے مطابق مرنے والوں میں ایک پروفیسر، سات طالب علم، یونیورسٹی کے دو سکیورٹی گارڈز اور نیشنل سکیورٹی فورسز کے تین اہلکار شامل ہیں۔

جب کہ نو پولیس اہلکاروں کے علاوہ 36 دیگر افراد بھی زخمی ہوئے جن میں عملے کے اراکین اور طالب علم شامل ہیں۔

پولیس کے مطابق یونیورسٹی میں تلاشی کے دوران دو حملہ آوروں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

Your browser doesn’t support HTML5

کابل میں امریکن یونیورسٹی پر حملہ


افغان صدر کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق جمعرات کو ’نیشنل سکیورٹی کونسل‘ کے ایک غیر معمولی اجلاس میں امریکن یونیورسٹی پر حملے متعلق اُمور کا جائزہ لیا گیا۔

بیان میں پاکستان کا نام لیے بغیر الزام لگایا گیا کہ افغان انٹیلی جنس ایجنسی ’نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) کو حاصل ہونے والی معلومات سے پتہ لگتا ہے کہ اس حملے کی منصوبہ بندی ڈیورنڈ لائن کی دوسری جانب کی گئی۔ تاہم بیان میں کہا گیا اس حملے سے تحقیقات جاری ہیں۔

بیان میں بتایا گیا کہ اس اہم اجلاس کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ٹیلی فون پر بات کی اور کہا کہ یونیورسٹی پر حملہ کرنے والوں کے خلاف سنجیدہ اور عمل کارروائی کی جائے۔

بیان کے مطابق جنرل راحیل شریف نے کہا کہ اس معاملے کا جائزہ لینے کے بعد کیے جانے والے اقدامات سے افغانستان کو آگاہ کیا جائے گا۔

کابل پولیس کے مطابق حملہ آوروں نے بدھ کی شام تقریباً ساڑھے چھ بجے کار بم دھماکا کیا، جس کے بعد خودکار اسلحے سے لیس شدت پسند یونیورسٹی پر چڑھ دوڑے تھے۔

حملے کے بعد افغان فورسز نے یونیورسٹی کو گھیرے میں لے کر حملہ آوروں کے خلاف کارروائی شروع کر دی۔

افغان صدر اشرف غنی نے اس حملے کو بزدلانہ فعل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ افغانستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ہے۔

پاکستان کے ایک پشتون رہنما اور سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کابل یونیورسٹی پر حملہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دہشت گرد افغان نوجوانوں کے دشمن ہیں۔

’’یہ تو اس بات کی نشانی ہے کہ جو دہشت گرد ہیں ان کا ہدف تعلیم ہے، نوجوان ہیں اور مستقبل ہے اور میرے خیال میں دہشت گردوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ افغان عوام کے دشمن ہیں، انسانیت کے دشمن ہیں اور میںٕ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے لوگوں کی ہمدردیاں افغان عوام کے ساتھ ہیں۔‘‘

پاکستان نے بھی کابل میں امریکن یونیورسٹی پر حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ وزارت خارجہ سے جاری بیان کے مطابق اس حملے میں جانی نقصان پر افغان حکومت اور عوام سے تعزیت کا اظہار کیا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ پاکستان ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔

افغان حکام کے مطابق حملے کے دوران یونیورسٹی میں موجود 700 سے زائد طالب علموں اور عملے کے اراکین کو باحفاظت باہر نکال لیا گیا۔

کابل امریکن یونیورسٹی پر حملہ

تاحال اس حملے کی ذمہ داری کسی فرد یا گروہ نے قبول نہیں کی ہے، لیکن طالبان کی طرف سے گزشتہ مہینوں سے اپنی پرتشدد کارروائیاں میں اضافہ دیکھا گیا ہے جس میں کابل میں ہلاکت خیز حملے میں بھی شامل ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے "افغانستان کے مستقبل پر ایک حملہ" قرار دیا ہے۔

رواں ماہ کے اوائل میں اس یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ایک امریکی پروفیسر اور ان کے آسٹریلوی ساتھی کو یہاں سے اغوا کر لیا گیا تھا، جنہیں تاحال بازیاب نہیں کروایا جا سکا ہے۔

یہ یونیورسٹی امریکی تعاون سے 2006ء میں قائم کی گئی تھی۔