خالد حمید کی یادیں: کیسی یہ عید آئی!

کبھی جو تصور میں بھی نہیں تھا، اس کرونا نے وہ کر دکھایا۔ اب تو عید ماضی کی خوب صورت یادوں میں ہی رہ گئی ہے۔

پاکستان کی حکومت کے اعلان کے مطابق اس بار عید پر آٹھ دن تک لاک ڈاؤن ہے۔ حکومت نے ہدایت کی تھی کہ لوگ گھروں میں رہیں اور احتیاط برتیں۔ ایک مشیر نے تو صاف کہہ دیا تھا کہ اس عید پر کوئی تقریبات، پارٹیاں، میل ملاپ، معانقہ یا مصافحہ نہیں ہوگا۔

بھارت میں تو صورتِ حال اور بھی گھمبیر ہے۔ وہاں عید کیسے ہوئی ہوگی؟ رہی بات یہاں امریکہ کی، تو یہاں نمازیں تو ہوئیں لیکن دور دور کھڑے ہو کر۔ ماسک لگا کر اور کوئی قریب نہیں آئے گا۔ کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا۔ بس دور سے مسکرائے گا۔

کبھی جو تصور میں بھی نہیں تھا، اس کرونا نے وہ کر دکھایا۔ اب تو عید ماضی کی خوب صورت یادوں میں ہی رہ گئی ہے۔

کیا رنگ ہوتا تھا۔ فضا میں خوشبوئیں بکھری ہوتی تھیں۔ نامہ و پیام و سلام ہوتے تھے۔ چاند رات سے ہی گہما گہمی، مہندیاں، چوڑیاں، بازاروں میں کھچا کھچ، شوخیاں، شرارتیں شروع ہو جاتی تھیں۔ اور پھر دوسرے دن عید بہت ہی سنجیدگی سے، عبادات سے شروع ہوتی تھی۔ گزرے ہوؤں کو قبرستان جا کر یاد کیا جاتا تھا۔

پھر جوں جوں دن گزرتا تھا شیرینیاں، پکوان، انواع و اقسام کے کھانے اور پھر رسمِ دنیا نبھاتے ہوئے گلے ملنا، محبت کا اظہار، خوش گپیاں، قہقہے، بس فضا میں عید ہی عید ہوتی، خوشیاں ہی خوشیاں ہوتیں۔

بچپن یاد آتا ہے، جب کئی دن پہلے سے ہی درزی کو کپڑے سلنے دیے جاتے اور بے چینی سے ان کا انتظار ہوتا کہ کب عید آئے گی اور کب نئے کپڑے پہنیں گے، کیوں کہ عموماً پورے سال میں یہ ایک ہی جوڑا ہوتا تھا، جو بنتا تھا۔ پھر چاند رات کو چچا جان سب بچوں کو بازار لے کر جاتے۔ رونق میلہ بھی دیکھتے اور نئے جوتے بھی خریدتے۔ اور پھر خوشی کا یہ عالم کہ رات کو وہ جوتے اپنے تکیے کے ساتھ رکھ کر سوتے کہ اس کے تازہ چمڑے کی خوشبو آتی رہے اور صبح ہوتے ہی نئے کپڑے اور جوتے پہنیں۔

پھر نماز کے لیے جانے کا انتظام ہوتا۔ تمام بزرگ سیاہ شیروانیاں یا سفید کرتا پاجامہ زیب تن کر کے عید گاہ کی طرف پیدل روانہ ہوتے کیوں کہ گاڑیوں کا زیادہ رواج نہیں تھا۔ کتنا اچھا لگتا تھا کہ لوگ جوق در جوق سڑکوں پر نظر آتے تھے۔ چھوٹے بچے اور بچیاں بھی ساتھ ہوتے تھے۔ سب اپنی اپنی جائے نمازیں اٹھائے ہوتے۔ راستے میں غبارے والے اور رنگ برنگ مٹھائیوں والے نظر آتے۔ چھوٹے بچے خریدنے کی ضد کرتے۔ انہیں بہلا پھسلا دیا جاتا کہ واپسی پر لے دیں گے۔

واپسی پر عید گاہ کے ساتھ والے قبرستان میں اپنے پیاروں کی قبروں پر فاتحہ خوانی ہوتی تھی۔ غرض کئی گھنٹے بعد تھکے ہارے گھر لوٹتے تو گھر کی خواتین سویاں، شیر، کباب، پوریاں اور مزے مزے کے پکوان سے سب کی تواضع کرتیں۔

اس کے بعد حسبِ مراتب بزرگوں اور رشتہ داروں کے گھر حاضری دی جاتی یا وہ ہمارے گھر آتے۔

ہم بچوں کو سب سے زیادہ خوشی عیدی ملنے کی ہی ہوتی تھی۔ بزرگ حضرات تو ایک آنے یا دو آنے لیکن ماموں، چچا آٹھ آنے یا ایک روپیہ دیتے تھے اور پھر جب کوئی مہمان آتا تھا تو یہ ہی انتظار ہوتا تھا کہ وہ بچوں کو عیدی کب دے گا۔ سارے خالہ زاد، ماموں زاد، چچا زاد بہن بھائی اکٹھا ہوتے تھے۔ کھیل کود ہوتا اور جمع کی ہوئی عیدی سے پسندیدہ کھلونے یا مٹھائیاں خریدی جاتی تھیں۔ کم از کم تین دن عید کی خوشیاں چلتی تھیں۔

پھر جب اسکول کالج جانے لگے تو عیدی کا ریٹ بھی تھوڑا بڑھ گیا۔ بڑے اب عمر کا لحاظ کرتے ہوئے ایک روپیہ، پانچ روپے اور کچھ صاحبِ حیثیت رشتے دار 10 روپے بھی دے دیتے تھے۔ سو، ڈیڑھ سو روپے جمع ہو جاتے تو مزا آ جاتا۔ اور آئندہ روز کے لیے جیب خرچ بن جاتا تھا۔

اس سے آگے بڑھے اور ریڈیو پر پروگرام شروع کیے تو آمدنی شروع ہو گئی۔ خود کفالت ہو گئی۔ لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ عیدی ملنا بند ہو گئی۔ سننے ملتا کہ اب تو خود کماتے ہو، عیدی کیوں دیں؟ بلکہ الٹا چھوٹوں نے عیدی مانگنا شروع کر دی۔ لینے کے دینے پڑ گئے۔ لیکن عیدی کی یہ تکرار، بچوں کا، بہن بھائیوں کا یہ شور، ہنگامہ اچھا لگتا تھا کہ عید کی اصل رونق ہی یہ تھی۔

فائل فوٹو

اس دوران ریڈیو اور ٹی وی پر عید کے خصوصی پروگرام بھی ہوتے تھے۔ ریڈیو پر خوشی کے گیت چلائے جاتے اور ٹی وی مزاحیہ خاکے، ہلکے پھلکے ڈرامے، طنز و مزاح سے بھرپور شاعری اور طربیہ نغمے پیش کرتا تھا۔

اور پھر جب شادی خانہ آبادی ہوئی، بچے ہوئے تو زندگی یکسر بدل گئی۔ خاندان وسیع ہوگیا۔ عیدی مانگنے والوں میں شوخ سالیاں اور سسرالی رشتے دار بھی شامل ہو گئے۔ دستر خوان لمبا ہو گیا۔ دعوتیں طویل ہو گئیں۔ محفلیں اور بھی پر رونق اور رنگین ہو گئیں۔

غرض تیزی سے بدلتی زندگی، ہر دور میں اپنا نیا رنگ دکھاتی، نیا روپ بدلتی ہمیں اس موڑ پر لے آئی کہ اس نے ہمیں دیوار سے لگا دیا۔ نہ آگے جا سکتے ہیں نہ پیچھے۔ ایک جمود اور سکوت طاری ہے۔

بھلا ہو نئی ٹیکنالوجی کا۔ موبائل فونز، واٹس ایپ، زوم اور انٹرنیٹ نے کچھ زندگی آسان کر دی ہے۔ کم از کم اپنوں کے چہرے دیکھ لیتے ہیں۔ بات ہو جاتی ہے۔ بےشک دور سے ہی سہی، دیدار تو ہو جاتا ہے۔

ڈر یہ ہے کہ یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو کہیں ہم اسی کے عادی نہ ہو جائیں۔ خاص طور پر بچے۔ وہ تو فون سے چمٹ گئے ہیں۔ کہیں یہ نہ ہو کہ وہ تنہائی کا شکار ہو کر انسانوں سے دور ہو جائیں۔

بس جناب سید محمد علی بخاری کے الفاظ میں یہ دعا ہے کہ

ہے واسطہ تجھے تیری کریمیء صفات کا

وسیلۂ کرم تجھے، تیرے حبیبِ پاک کا

مصیبتیں جہان کی بزورِ کُن تو ٹال دے

تو اپنے بندگان کو وبا کے اس وبال سے نکال کر امان دے

زمیں کو پھر سے اذنِ رقصِ زندگی کا دان دے

آمین۔

اپنے سب چاہنے والوں، دیکھنے اور پڑھنے والوں کو عید مبارک!