کچھ یادیں، کچھ باتیں

یہ سات اکتوبر دو ہزار سات کی سہ پہر تھی۔ میرے سیل فون کی گھنٹی بجی۔ ٹیلیفون اٹھایا تو دوسری جانب سے آواز آئی، بی بی سے بات کریں
کچھ یادیں، کچھ باتیں
قمر عبّاس جعفری

بعض یادیں ایسی ہوتی ہیں کہ انسان یہ سوچتا ہے کہ کاش یہ یادیں ذہن سے محو ہو جائیں۔ مگر ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ خواہ یادیں کتنی ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہوں بہرحال حافظے میں محفوظ رہتی ہیں۔

ایسی ہی ایک یاد کا ذکر۔۔۔

یہ سات اکتوبر 2007 کی سہ پہر تھی۔ میرے سیل فون کی گھنٹی بجی۔ ٹیلیفون اٹھایا تو دوسری جانب سے آواز آئی، بی بی سے بات کریں۔ اور فورًا ہی محترمہ بے نظیر بھٹو کی آواز آئی۔ سلام علیکم جعفری صاحب۔ دوبئی سے ان کی کال تھی۔ 18 اکتوبر کو وہ اپنی تقربیاً ایک عشرے کی جلا وطنی ختم کرکے پاکستان روانہ ہونے والی تھیں ۔کچھ دیر ان سے باتیں ہوتی رہیں۔ انہوں نے اپنی جِلا وطنی کا تذکرہ Dark Days کہہ کر کیا۔ اور ذرائع ابلاغ کے لیے تشکّر آمیز جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا نے تاریک دنوں میں ان کا ساتھ دیا۔

گفتگو کے دوران اندازہ ہوا کہ انہیں پاکستان میں خود کو درپیش خطرات کا پوری طرح احساس تھا۔ لیکن وہ تمام خطرات کے باوجود پاکستان واپس جانے اور انتخابات میں اپنی پارٹی کی راہنمائی کرنے کے لیے پر عزم تھیں اور انہوں نے خطرات کی پروا نہ کرنے کا فیصلہ کررکھاتھا۔ ان کی جِلا وطنی کے پورے دور میں نہ صرف ٹیلیفون اور ای میل کے ذریعے میرا ان سے رابطوں اور انٹرویوز کا سلسلہ جاری رہا تھا بلکہ وہ جب بھی واشنگٹن آتی تھیں، ان سے ملاقات بھی ہوجاتی تھی، کبھی نیوز کانفرنسوں میں اور کبھی کسی اور ذریعے سے۔ بی بی کئی بار میری دعوت پر انٹرویوز کے لیے واشنگٹن میں وائس آف امریکہ کے سٹوڈیوز میں بھی آئیں۔

وہ جب بھی وائس آف امریکہ آتی تھیں تو اردو سروس ان کا انٹرویو کرتی تھی، دوسری زبانوں کی سروسز مثلًا ہندی، پشتو، دری، فارسی، عربی، کردش، اور انگریزی سروسز بھی ان کا انٹرویو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ۔اور اکثر یہ ہوتا کہ کچھ لوگ انٹرویوز کرنے سے رہ جاتے۔ اور وہ ان سے آئندہ ضرور انٹرویو دینے کا وعدہ کرلیتیں۔

متحرمہ جب بھی وائس آف امریکہ میں آتیں تو میں انہیں گاڑی تک چھوڑنے جاتا۔ وہ بالعوم مجھے یہ کہا کرتی تھیں کہ تم مجھے بلا کر مشکل میں ڈال دیتے ہو۔ لیکن ان کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ انٹرویو کے لیے زیادہ سے زیادہ رپورٹرز کو accommodate کر سکیں۔

آخری بار جب وہ وائس آف امریکہ آئیں تو یہاں آڈیٹوریم میں ان کی باقاعدہ پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جس میں واشنگٹن میں مقیم بہت سے اخباروں اور خبر رساں ایجنسیوں کے نمائندوں نے شرکت بھی کی تھی۔

پھر 18 اکتوبر کو وہ پاکستان واپس چلی گئیں۔ اپنے پرستاروں اور چاہنے والوں کے درمیان۔ ظاہر ہے کہ اس مرتبہ وطن واپسی پر انہیں اپنی دو مرتبہ کی وزارت عظمٰی کا تجربہ بھی تھا اور ایک عشرے کی جلا وطنی کے تجربات بھی ان کے ساتھ تھے۔

اس دوران پاکستان کی سیاست میں کافی شکست و ریخت ہوچکی تھی۔ پہلے اے آر ڈی کو مضبوط کرنے کی باتیں ہوئیں۔ میثاق جمہوریت بنا ۔ بے نظر بھٹو کی پیپلز پارٹی اور ان کے روایتی حریف میاں نواز شریف کی مسلم لیگ میں گہرے تعاون کی ایک شکل سامنے آئی۔ ماضی کے حریف، حال کے حلیف بن گئے۔ لندن میں میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی مشترکہ نیوز کانفرنسیں بھی ہوئیں۔ ایسی ہی ایک نیوز کانفرنس کے دوران جو لندن میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے دفتر واقع بیکر سٹریٹ میں ہوئی تھی، میری بےنظیر صاحبہ سے ملاقات ہوئی۔ وہ اس نئے اتحاد سے بہت مطمئین نظر آتی تھیں۔

پھر دونوں پارٹیوں یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات کی خبریں آنے لگیں۔ لندن میں میاں نواز شریف نے پاکستان کی اپوزیشن پارٹیوں کا اجلاس بلایا۔ جہاں نیا اتحاد اے پی ڈی ایم بنا۔ اور اس وقت پیپلز پارٹی کا راستہ الگ ہو گیا۔ میاں نواز شریف پاکستان گئے اور انہیں ایئرپورٹ سے ہی واپس سعودی عرب بھیج دیا گیا۔

اب محترمہ بے نظیر کی پاکستان جانے کی تیاری تھی۔ لیکن ان کی واپسی سے قبل قومی مصالحتی آرڈیننس آ چکا تھا۔ اور پرویز مشرف سے مصالحت کے بعد وہ پاکستان جا رہی تھیں۔ جب وہ 18 اکتوبر کو کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اتریں تو ملک کے کونے کونے سے لاکھوں لوگ ان کے استقبال کے لیے جمع ہوئے۔

ایئرپورٹ سے نکلنے والے ان کے طویل جلوس میں طاقت ور بم دھماکے ہوئے، جن کے نتیجے میں ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے۔ نہ کتنے گھر اجڑ گئے۔ کتنے بچّے یتیم ہو گئے۔ کتنی سہاگنوں کی مانگیں اجڑ گئی۔ اور ان کے مجرم آج تک پکڑے نہیں جاسکے۔ بے نظیر بھٹو بار بار یہ کہتی رہیں کہ وہ خطرے میں ہیں۔ ان کو مارنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

اور پھر آخرکار 27 دسمبر کی تاریخ آگئی۔ اس صبح جب یہاں واشنگٹن میں سورج کی ناتواں کرنیں سرد موسم کی شدّت کو کم کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں، اور ادھر پاکستان میں 2007ء کے آخری دنوں کا ایک کا سورج غروب ہونے کو تھا۔ اور جڑواں شہر راولپنڈی میں شام کےسائے گہرے ہو رہے تھے، محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی کا چراغ گل کر دیا گیا۔ ان کے ساتھ کئی دوسرے بے گناہوں کی زندگیوں کے دیے بھی بجھادیے گئے۔ وہ سب بے رحم قاتلوں کی گولیوں اور بموں کا نشانہ بن گئے۔ اور موت کے ہرکارے ایک بار پھر زندگی پر، اس کی خوشیوں پر غالب آگئے۔ اور موت کا بازار ایک بار پھر اسی طرح گرم ہو گیا جیسا کہ اس سے گزشتہ برسوں میں وقفے وقفے سے ہوتا رہا تھا۔


بے رحم قاتل جب اور جہاں چاہتے ہیں ، جس پر چاہتے ہیں، وار کر گزرتے ہیں۔ اپنی زندگی تو ہارتے ہی ہیں، دوسری بہت سے زندگیوں کے چراغ بھی گل کردیتے ہیں۔ کبھی مذہب کے نام پر، کبھی عقائد کے نام پر، اور کبھی نظریات کے نام پر۔

اس روز بھی میرے سیل فون کی گھنٹی بجی تھی۔ اتفاق سے میری چھٹی کا دن تھااور بستر سے نکلنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ مجھ پر نیم غنودگی کی کیفیت طاری تھی۔ فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ مجبور ہو کر فون اٹھایا۔ کسی دوست نے انتہائی غمزدہ آواز میں بتایا کہ بی بی اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔ کچھ دیر پہلے انہیں قتل کر دیا گیا ہے۔ راولپنڈی کے لیاقت باغ کے سامنے۔ اسی لیاقت باغ کے سامنے جہاں سے اس قبل پاکستان کے پہلے وزیر اعظم اور تحریک پاکستان کےممتاز راہنما لیاقت علی خان کو بھی خون میں نہلایا گیا تھا۔

میرے ذہن کے پردے پر تاریخ کے اوراق پلٹتے رہے۔ اور میں سوچتا رہا کہ کب تک جاری رہے گی یہ دیوانگی۔ ابھی اس قوم کو کتنا خون دینا پڑے گا۔ ابھی اور کتنے بچّے یتیم ہوں گے۔ ابھی اور کتنی مانگیں اجڑیں گی۔ کب یہ احساس پیدا ہوگا کہ بس اب بہت ہوگیا۔ اب یہ تباہی و بربادی اور انسانی خون کی ارزانی کا کھیل ختم ہونا چاہیے۔ آگ اور خون کا یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ ابھی ضمیر بیدار نہیں ہوئے۔ ابھی احساس نہیں جاگا۔ کاش وہ وقت جلد آئے جب اہل وطن کو اپنے گھروں سے باہر نکلتے ہوئے کوئی خوف نہ ہو اور ۔مادر وطن کی نعمتوں پرسب کا مساوی حق ہو۔۔۔۔ کاش

_____________________________________________________________________
The above blog post does not represent the point of view of Voice of America nor the United States Government