لاہور کی مشہور 11 تہوں والی باقر خانی

باقر خانی بنانا مشکل اس لیے ہے کہ صبح کے ناشتے کی تیاری رات کے آدھے پہر سے ہی شروع کرنا پڑتی ہے۔

نصف شب کو جب تندوروں پر روٹیاں پکنا بند ہو جاتی ہیں، تو تندور کو ٹھنڈا کرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہیں سے دراصل باقر خانی کی تیاری کا آغاز ہوتا ہے۔

میدے کو گھی، دودھ اور نمک والے پانی سے اچھی طرح گوندھا جاتا ہے جس کے بعد اسے چار گھنٹے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

اس کے بعد پیڑے بنانے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ ایک پیڑے سے بننے والی پرت پر گھی لگایا جاتا ہے اور پرت در پرت گھی لگانے کا سلسلہ 11 تہوں تک جاری رہتا ہے۔

پیڑے بنانے سے قبل میدے کی 11 پرتیں ایک دوسرے کے اوپر رکھی جاتی ہیں جس کے بعد انہیں لمبی لمبی پٹیوں کی شکل میں کاٹا جاتا ہے۔

میدے کی پٹیاں کاٹ کر پیڑے بنانے کے لیے چوکور نشان لگائے جاتے ہیں تاکہ تمام باقر خانیاں یکساں سائز کی ہوں۔

پیڑوں کو 11، 11 پرتوں کی شکل میں رکھ کر کاٹنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔

پیڑے کو پھیلا کر گول شکل دی جاتی ہے اور خوب صورتی کے لیے درمیان میں ایک سوراخ کر دیا جاتا ہے۔

باقر خانی کو کچھ وقت کے لیے تندور میں ہلکی آنچ پر پکنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

باقر خانی کو اس وقت تک پکایا جاتا ہے جب تک اس کا رنگ سرخی مائل نہیں ہوجاتا۔ اس مرحلے سے گزرنے کے بعد آگ پر سکی ہوئی، گرما گرم، خستہ اور کراری تازہ باقر خانی کو دیکھتے ہی منہ میں پانی آ جاتا ہے۔ 

صبح ہونے تک باقر خانی کا اسٹاک تندوروں سے نکال کر شیشے کے شوکیس میں رکھ دیا جاتا ہے جہاں سے یہ لوگوں کے گھروں اور دُکانوں پر پہنچتی ہے اور لوگ اسے مکھن یا چائے کے ساتھ مزے لے کر کھاتے ہیں۔