تھائی لینڈ میں بندروں کی 'راجدھانی'

لوپبوری کے کچھ مقامات پر بندروں کا اتنا کنٹرول ہے کہ وہ انسانوں کے لیے 'نو گو ایریا' بن گئے ہیں۔ وہاں جانے والے انسانوں پر بندر حملہ کرتے ہیں اور انہیں بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ بندر ہر جگہ گندگی کرتے ہیں اور فضلہ پھیلاتے ہیں۔ جب بارش ہوجائے تو گندگی اور بدبو سے شہریوں کا برا حال ہو جاتا ہے۔

لوپبوری میں پراگ سام یود نامی ایک تاریخی مندر ہے جو بدھ مت کے ماننے والوں کا ہے۔ لیکن یہ جگہ اب بندروں کی وجہ سے مشہور ہے۔

مندر اور اس کے آس پاس کے علاقے پر بندروں کا زور ہے۔ درجنوں کی تعداد میں بندر یہاں گھروں کی دیواروں اور گلیوں میں گشت کرتے ہیں اور اچھلتے کودتے دکھائی دیتے ہیں۔

اپنی اسی انفرادیت کی وجہ سے یہ علاقہ سیاحوں میں مقبول ہے۔ کرونا وائرس کی وبا پھیلنے سے قبل یہاں بڑی تعداد میں سیاح آتے تھے اور بندروں کے ساتھ سیلفیاں کھنچوا کر انہیں خوراک دے جاتے تھے۔ لیکن کرونا وائرس کے باعث سیاحوں کی آمد ختم ہوئی تو بندروں کے لیے خوراک کا مسئلہ پیدا ہو گیا۔

خوراک کی کمی کے باعث بندروں کے رویوں میں تبدیلی آنا شروع ہوئی اور یہ لڑائی جھگڑوں پر اتر آئے۔

بندروں کا پرتشدد رویہ دیکھتے ہوئے حکومت اب ان کی آبادی روکنے کی مہم چلا رہی ہے جس کے تحت بندروں کی نس بندی کی جا رہی ہے۔

لوپبوری میں بندروں کی نس بندی کا پروگرام تین سال سے رکا ہوا تھا اور ان تین برسوں میں یہاں بندروں کی تعداد دوگنا ہو کر چھ ہزار تک پہنچ گئی ہے۔

یہ بندر شہریوں کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ لہٰذا کچھ مقامی افراد بندروں کے جھگڑوں سے بچنے کے لیے انہیں خود ہی خوراک پہنچا دیتے ہیں۔

لوپبوری میں ایک سنیما کی پرانی عمارت پر بندروں کا قبضہ ہے جسے انہوں نے اپنا ہیڈ کوارٹر اور قبرستان بنایا ہوا ہے۔ مر جانے والے بندروں کو ان کے ساتھی سنیما کے پروجیکشن روم میں چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر اس عمارت میں کوئی انسان داخل ہونے کی کوشش کرے تو بندر اس پر حملہ کرتے ہیں۔

یہ بندر دکان داروں کو بھی تنگ کرتے ہیں اور اکثر ان کی چیزیں اٹھا کر بھاگ جاتے ہیں۔

بندروں کی نس بندی کا پروگرام لوپبوری میں محکمۂ جنگلی حیات نے دوبارہ شروع کیا ہے۔ محکمۂ جنگلی حیات کے ملازمین بندروں کو خوراک اور پھلوں کا لالچ دے کر انہیں پنجرے میں بند کرتے ہیں اور ایک کلینک میں لے جاتے ہیں۔ بندروں کو بے ہوش کر کے نس بندی کرنے کے بعد ان کے جسم پر ایک ٹیٹو بنا دیا جاتا ہے تاکہ ان کی نشان دہی ہو سکے۔

محکمۂ جنگلی حیات نے بندروں کی بڑھتی آبادی کے پیشِ نظر ایک طویل المدتی منصوبہ بھی بنایا ہے جس کے تحت بندروں کے لیے شہر کے ایک اور علاقے میں رہائش گاہ تعمیر کی جائے گی۔