خسرے کی وبا پھوٹ پڑنے کا حقیقی خطرہ

  • بہجت جیلانی

ایک بچے کو خسرے کی ویکسین دینے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ فائل فوٹو

ایک وقت تھا جب خسرے جیسے متعدی امراض کے بارے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں ان پر قابو پا لیا گیا ہے۔ لیکن اب ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن یا عالمی ادارہ صحت خبردار کر رہا ہے کہ عالمی سطح پر خسرے کی وبا کے پھوٹ پڑنے کا خطرہ موجود ہے۔ دنیا بھر میں خسرے کے کیسز میں اضافہ دیکھا گیا ہے خاص طور پر متمول اور خوشحال ملکوں میں ۔

وائس آف امریکہ کی کیرل پیرسن کا کہنا ہے کہ بیشتر افراد خسرے کو بھی ایک عام وائرس کی طرح سمجھتے ہیں لیکن خسرہ موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بینائی کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور بچ جانے والے متاثرہ افراد اندھے اور بہرے بھی ہو سکتے ہیں یا پھر ان کے دماغ کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور یہ جنگل کی آگ کی طرح تیزی سے پھیلتا ہے۔ امریکہ میں کلیو لینڈ کلینک چلڈرنز سے ڈاکٹر کامیل سبیلہ کا کہنا ہے کہ خسرہ انتہائی متعدی مرض ہے۔ اگر کسی کمیونٹی میں ایک بار اس کا آغاز ہو جائے تو پھر اس پر قابو پانا بے حد مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے جراثیم ہوا کے ذریعے ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہو سکتے ہیں۔

یہ بیماری کھانسنے اور چھینکنے سے بھی پھیلتی ہے اور اس کے جراثیم ہوا یا کسی سطح پر دو گھنٹے تک موجود رہتے ہیں اور خسرہ پھیلانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ سی ڈی سی سے ڈاکٹر نینسی میزونیئر کہتی ہیں یوں سمجھئے کہ اگر ایک کمرے میں خسرے کا مریض موجود ہے اور دس ایسے افراد بھی ہیں جنہیں خسرے کے بچاؤ کی ویکسین نہیں دی گئی تو پھر ان میں سے نو خسرے کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ہمیشہ یہ بھی واضح طور پر معلوم نہیں ہوتا کہ کون اس بیماری کو پھیلانے کا باعث بن سکتا ہے۔

ڈاکٹر نینسی میزونیئر کا کہنا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ ایک ایسے شخص سے یہ بیماری دوسرے لوگوں میں پھیل جائے جس کے جسم پر ابھی خسرے کے دانے نمودار بھی نہیں ہوئے اور ایسا خسرے کے آثار نظر آنے سے چار روز پہلے تک ممکن ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ابھی مریض کو خود بھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اس وائرس کا شکار ہو چکا ہے اور وہ دوسروں میں یہ جراثیم منتقل کر سکتا ہے۔

چلڈرنز نیشنل میڈیکل سنٹر کی ڈاکٹر رابرٹا ڈیبیاسی کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ایسا بچہ جس میں خسرے کے جرا ثیم پیدا ہو چکے ہیں وہ کسی بھی ایسے بچے کی طرح دکھائی دے گا جسے نزلہ زکام ہے، کھانسی ہے لیکن چار روز تک اس کے جسم پر خسرے کے دانے یا نشانات نظر نہیں آئیں گے۔

خسرے کی بیماری خاص طور پر بہت چھوٹے بچوں یا نو عمر بچوں کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

کلیو لینڈ کلینک چلڈرنز کی ڈاکٹر کامیل سبیلہ کہتی ہیں کہ خسرے کی وبا کے دوران ان بچوں کو محفوظ رکھنا بہت دشوار ہو جاتا ہے جنہیں خسرے کے بچاؤ کی ویکسین نہیں دی گئی۔

خسرے کے دانے اور نشان نظر آنے کے ساتھ ساتھ شدید بخار بھی ہوتا ہے۔

بچوں کی حفاظت کا بہترین طریقہ ان کو خسرے سے بچاؤ کی ویکسین دینا ہے۔

ڈبلیو ایچ او یا عالمی ادارہ صحت کی ڈاکٹر کیتھرین او برائن کہتی ہیں کہ خسرے سے بچاؤ کے لئے ہمارے پاس بہت سود مند ویکسین موجود ہے۔ گزشتہ پچاس برسوں سے ہم یہ ویکسین استعمال کر رہے ہیں۔ لاکھوں بچوں کو یہ ویکسین استعمال کرائی جا چکی ہے اور وہ خسرے سے محفوظ صحت مند زندگی گزار رہے ہیں ۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ 2017 کے مقابلے میں 2018 میں خسرے کا شکار ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے خود اس کا انتخاب کیا ہے کیونکہ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی بعض والدین اپنے بچوں کو ویکسین استعمال نہیں کراتے اور غریب اور پسماندہ ملکوں میں والدین کے پاس ہمیشہ یہ سہولت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے بچوں کے لئے یہ ویکسین حاصل کر سکیں۔