تاریخ کا گہوارہ بہاولپور کا نور محل

سن 1878 میں تعمیر ہونے والا نور محل اب فوج کے زیر انتظام ہے اور ایک تاریخی عجائب گھر کا درجہ رکھتا ہے۔ 

نور محل باہر سے جتنا خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔ اس کا اندرونی حصہ بھی اُتنا ہی وسیع و کشادہ ہے۔

داخلی دروازے سے بائیں جانب دربار ہال ہے جس میں تمام ادوار کے نوابوں کا ذکر اُن کی تصویروں کے ذریعے دکھائی دیتا ہے۔

دربار ہال سے مُنسلک کمروں کو بہاولپور شہر کے سات دروازوں سے مماثلت دی گئی ہے جس میں سابقہ ریاست میں ہونے والے تمام ترقیاتی امور پوسٹروں کے ذریعے بیان کیے گئے ہیں۔

نواب صادق محمد خان عباسی پنجم کا اپنی رعایا کے لیے آخری پیغام بھی یہاں چسپاں ہے جس میں اُنہوں نے ریاست بہاول پور کے رہنے والوں کو پاکستان کے ساتھ وفادار رہنے کی تلقین کی تھی۔

ہفتہ وار صادق الاخبار بہاولپور کی کاپیاں بھی یہاں دیکھی جاسکتی ہیں۔

ریاست نے اپنا عدالتی اور فوجی نظام بھی تشکیل دے رکھا تھا۔ یہاں تصویریں اُس دور کا احوال بیان کرتی ہیں۔ 

نوابوں کی فوج کے زیر استعمال رہنے والے ہتھیار بھی یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔

بیڈ روم کے طور استعمال ہونے والے کمروں میں اُس دور میں استعمال ہونے والا فرنیچر بھی رکھا گیا ہے۔

قائداعظم کی جانب سے تحفے میں دیا گیا اسنوکر ٹیبل اور تماشائیوں کی کرسیوں کی نمائش کے لیے بھی ایک کمرہ مختص کیا گیا ہے۔

چولستان کی عورتیں زیادہ تر نتھ، مختلف اقسام کے ہار، لٹکن، جھمکے اور پازیب پہنتی ہیں۔ اس علاقے کے زیادہ تر زیورات شیشے، سونے، دھات اور جواہرات کے بنے ہوتے ہیں، جو اس عجائب گھر کا حصہ ہیں۔

محل کے باہر 1935 کی وہ گاڑی بھی رکھی گئی ہے جسے نواب صادق محمد خان عباسی پنجم نے اپنے سفر حج کے دوران استعمال کیا تھا۔

مغربی اور مشرقی تہہ خانہ بھی عوام کے لیے کھلا ہوتا ہے جس میں کچن، چمنیوں اور ڈائننگ رومز کی موجودگی کے آثار ملتے ہیں۔
 

تہہ خانے کی سیڑھیاں صادق گیلری کی طرف بھی جاتی تھیں، جنہیں بعد میں بند کردیا گیا۔