پاکستان: حکومت اور طلبہ کے درمیان امتحانات کا مسئلہ ہے کیا؟

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان میں حکومت طلبہ کے فیزیکل امتحانات پر اصرار کر رہی ہے، جب کہ طلبہ کا کہنا ہے کہ جب پڑھائی آن لائن ہوئی ہے تو امتحان بھی آن لائن لیے جائیں۔ حکومت اور طلبہ کی اس بحث میں ماہرینِ تعلیم کی کیا رائے ہے؟ جانتے ہیں پنجاب یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سے منسلک ڈاکٹر عرونہ ہاشمی سے۔
پاکستان: حکومت اور طلبا کے درمیان امتحانات پر اختلاف
پاکستان: حکومت اور طلبا کے درمیان امتحانات کامسئلہ ہے کیا؟




ORIGINAL INTRO
پاکستان بھر میں میٹرک، انٹر اور کیمبرج کے امتحانوں کا انعقاد اپنے اندر ایک امتحان بنا ہوا ہے۔ پچھلے سال تو بیشتر بچے کرونا کےلاک ڈاؤنز کے سبب امتحان دیئے بغیر اگلی کلاسوں میں چلے گئے تھے۔ لیکن اب وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کا بچوں کے لیے پیغام ہے کہ ان پرسن امتحان ہوں گے۔حکومت فیصلے پر قائم رہے گی۔ کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے۔
نویں دسویں گیارہوں اور بارہویں جماعتوں کے امتحانات دس جولائی کے بعد ہوں گے۔حتمی تاریخوں کا تعین صوبائی وزرائے تعلیم کریں گے۔نویں اور دسویں کے بچے تین اختیاری مضامین اور ریاضی کا پرچہ دیں گے۔جبکہ گیارہوں ا ور بارہوں کے طلبا صرف اختیاری مضامین کا اور او لیولز کے امتحانات 26 جولائی سے ہوں گے۔ اور پیپر ملٹی پل چوائسز پر مشتمل ہوں گا۔لیکن طلبا ان نرمیوں کے باوجود سخت اعتراض کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا سے لے کر سٹرکوں تک احتجاج پہلے بھی کیا گیا۔ اب بھی ہو رہا ہے۔ کہ جب پڑھائی آن لائن ہوئی تو امتحان بھی آن لائن لیے جائیں۔ ان پرسن نہیں اور جب کئی مضامیں کا پرچہ ہو گا ہی نہیں تو پھر امتحانات کے نتائج کو مستقبل کے لیے بنیاد کیوں بنایا جائے۔حکومت اور طالب علموں کے اس بحث میں ماہرین تعلیم کیا سوچ رہے ہیں۔ کن پہلووں کو اہمیت دی جانی چاہیے؟ جانتے ہیں پنجاب یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سے منسلک اسسٹنٹ پروفیسر ، ڈاکٹر عرونہ ہاشمی سے سارہ زمان کی گفتگو میں۔