سندھ میں صحافی کا مبینہ قتل، عالمی تنظیم کا شفاف تحقیقات کا مطالبہ

اجے کمار لالوانی (فائل فوٹو)

صحافیوں کی عالمی تنظیم "کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس" (سی پی جے) نے پاکستان کے صوبۂ سندھ کے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ رواں ہفتے مقامی صحافی کے مبینہ قتل میں ملوث ملزمان کو فوری گرفتار کرے اور واقعے کی شفاف تحقیقات کی جائیں۔

پولیس اور عینی شاہدین کے مطابق 31 سالہ اجے کمار لالوانی کو بدھ کو اس وقت نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا جب وہ سندھ کے شہر سکھر میں ایک حجام کی دکان پر بیٹھے تھے۔

نجی اردو اخبار سے وابستہ لالوانی کو فوری طور پر مقامی اسپتال منتقل کیا گیا، تاہم وہ جانبر نہ ہو سکے۔

'سی پی جے' کے ایشیا کے لیے ڈائریکٹر اسٹیون بٹلر کا واقع سے متعلق جاری کردہ بیان میں کہنا ہے کہ سندھ کی پولیس کو تحقیقات میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے اور واقع میں ملوث مجرموں کو فوری طور پر گرفتار کرنا چاہیے۔

سکھر پولیس کی طرف سے اس قتل کی تحقیقات کے لیے جمعے کو ایک ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔ تاہم ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ لالوانی کو ان کے پیشہ ورانہ کام کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا یا نہیں۔

اسٹیون بٹلر کا مزید کہنا تھا کہ یہ ضروری ہے کہ واقع کی تحقیقات ایسے پولیس افسران کریں جن پر لوگوں کو اعتماد ہو۔

'سی پی جے' کے مطابق مذکورہ اخبار کے مدیر عاشق جتوئی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ لالوانی کو پیشہ ورانہ فرائض کے باعث ہی قتل کیا گیا ہے کیوں کہ انہیں ماضی میں دھمکیاں بھی ملتی رہی ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

'مقامی میڈیا میں کام کر کے میری آنکھیں کھل گئیں'

خیال رہے کہ گزشتہ سال بھی سندھ میں کم از کم دو صحافیوں کو اغوا اور قتل کرنے کے واقعات سامنے آئے تھے۔

ان صحافیوں کے اداروں اور اہلِ خانہ نے الزام لگایا تھا کہ ان صحافیوں کو مقامی پولیس اور منشیات فروش کے درمیان مبینہ تعلقات اور صوبائی حکومت کی کرپشن کو بے نقاب کرنے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا تھا۔

البتہ صوبائی حکومت اور مقامی پولیس حکام ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان میں صحافیوں پر ریاستی جبر میں اضافہ

سی پی جے کے مطابق پاکستان صحافیوں کے لیے طویل عرصے سے ایک خطرناک ملک سمجھا جاتا ہے اور صحافیوں پر کیے جانے والے حملوں میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔

'سی پی جے' کی جانب سے صحافیوں کے لیے خطرناک ممالک کی فہرست میں پاکستان کو نویں نمبر پر رکھا گیا تھا۔