چلی میں عدم مساوات کے خلاف پرتشدد مظاہرے

چلی میں یہ مظاہرے ایسے موقع پر ہوئے ہیں جب ملک میں ایک ہفتے بعد ریفرنڈم ہونا ہے جس میں عوام یہ فیصلہ کریں گے کہ اُنہیں آمرانہ دور میں بنائے جانے والے والے آئین میں تبدیلی منظور ہے یا نہیں۔

گزشتہ برس 18 اکتوبر کو چلی میں میٹرو کے کرائے بڑھانے کے ردِ عمل میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے جو جلد ہی ملک بھر میں معاشی ناانصافی اور حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک میں بدل گئے تھے۔

احتجاجی تحریک کا ایک سال مکمل ہونے پر اتوار کو صبح کے آغاز سے ہی سانتیاگو کے مرکزی علاقے پلازہ اٹالیہ میں ماحول جشن سے بھرپور تھا۔ لیکن دوپہر تک پرتشدد واقعات، لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کے کئی واقعات رونما ہوئے۔

مظاہرین نے ایک گرجا گھر کو مکمل طور پر نذرِ آتش کر دیا جب کہ دوسرے گرجا گھر میں لوٹ مار کی اور اسے آگ لگا دی جس سے عمارت کو شدید نقصان پہنچا۔ تاہم بعدازاں فائر فائٹرز نے آگ پر قابو پالیا۔

بیشتر مظاہرین نے کرونا کی وبا کی وجہ سے ماسک پہن رکھے تھے۔ اکثر مظاہرین بینرز پکڑے ناچ گا رہے تھے۔ جب کہ پولیس بھی پلازہ اٹالیہ سے پیچھے پوزیشن سنبھالے کھڑی تھی۔

 

پرتشدد احتجاج کے بعد ملک کے صدر سباستین پنیرا نے مظاہرین سے پر امن رہنے اور کرونا وائرس کی وجہ سے عائد پابندیوں کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

سان تیاگو کے ایک علاقے میں فٹ بال کے شائقین کے مابین بھی جھڑپیں ہوئیں جب کہ مظاہرین نے پلازہ اٹالیہ میں ایک مجسمے کو سرخ رنگ سے بھی پینٹ کر دیا۔

 

مظاہرین نے سینٹرل اسکوائر پہنچنے والے ایک نزدیکی علاقے کے کمیونسٹ میئر کو بھی احتجاج سے نکال باہر کیا اور ریفرنڈم کے دوران شہریوں سے نئے آئین کے حق میں ووٹ دینے کا مطالبہ کیا۔

مظاہرین کی جانب سے گرجا گھر میں لگائی گئی آگ کو فائر بریگیڈ کا عملہ بجھانے کی کوشش کررہا ہے۔

یاد رہے کہ چلی میں اب تک 13 ہزار 600 افراد کرونا وائرس کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ کیسز کی تعداد چار لاکھ 90 ہزار سے زائد ہے۔