بدعنوانی کے باعث افغانستان میں امریکی مشن کو دھچکا: رپورٹ

فائل

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سکیورٹی، سیاسی استحکام اور ترقی کی راہ میں بدعنوانی ایک بہت بڑا چیلنج ہے؛ اور امریکی مشن پر زور دیا گیا ہے کہ وہ انسدادِ بدعنوانی کو اپنی اولینِ ترجیح قرار دے

افغانستان میں وسیع تر بدعنوانی کے باعث ملک کی تعمیر نو کی امریکی کوششوں کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ یہ بات بدھ کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہی گئی ہے۔

افغانستان میں تعمیرات سے متعلق امریکی حکومت کےخصوصی انسپیکٹر جنرل، جان سپوکو نے کہا ہے کہ رشوت ستانی کے نتیجے میں ’آپریشن انڈیورنگ فریڈم‘ کے آغاز سے افغان حکومت کے خلاف شکایتیں پیدا ہوئیں جب کہ بدعنوانی کے نتیجے میں سرکش کارروائیوں کو مادی حمایت میسر آئی۔

سپوکو کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سکیورٹی، سیاسی استحکام اور ترقی کی راہ میں بدعنوانی ایک بہت بڑا چیلنج ہے؛ اور امریکی مشن پر زور دیا گیا ہے کہ وہ انسدادِ بدعنوانی کو اپنی اولینِ ترجیح قرار دے۔

رپورٹ میں افغانستان کے اداروں میں انسداد بدعنوانی کی حکمتِ عملی پر عمل درآمد کے لیے متعدد سفارشات پیش کی گئی ہیں۔

حالانکہ افغان معیشت کے لیے امریکہ نے اربوں ڈالر فراہم کیے ہیں، لیکن مسئلے کی جڑ تک پہنچتے پہنچتے، بدعنوان نیٹ ورکس کی سرپرستی میں ادا ہونے والے کردار اور رشوت ستانی کے باعث اصل امریکی اہداف کو لاحق خطرات تسلیم کرنے میں تاخیر کے نتیجے میں، بدعنوانی پھیل چکی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چند امریکی پالیسیاں اور روایات بھی مسئلہ بڑھانے کا موجب بنی ہیں۔

رپورٹ جس کا عنوان ’تنازع اور بدعنوانی: افغانستان میں امریکی تجربے پر مبنی سبق‘ میں سفیر رائن کروکر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ’’ہماری کوششوں کی ناکامی کا اصل سبب سرکشی نہیں تھا۔ اس کا باعث بدعنوانی کےمخصوص مسئلے کا بوجھ تھا‘‘۔

گیارہ ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد، کروکر نے کابل میں امریکی سفارت خانہ دوبارہ کھولا، اور پھر 2011ء سے 2012ء تک پھر سے افغانستان میں سفیر کے طور پر فرائض انجام دیے (اور، وہ ’براڈکاسٹنگ بورڈ آف گورنرز‘ کے رکن ہیں، جو بین الاقوامی نشریات کی نگرانی کرتا ہے، جس میں ’وائس آف امریکہ‘ بھی شامل ہے)۔

کروکر کے الفاظ میں ’’آغاز ہی سے کرپشن کی خوردبین کا عمل دخل ہونا چاہیئے تھا، یا اُس سے بھی پہلے جب تعمیر نو اور ترقی کی حکمتِ عملی تیار ہو رہی تھی، چونکہ اب یہ انتہائی درجے پر پہنچ چکی ہے، جیسا کہ میں نے دیکھا ہے۔ یہ اُس سطح پر ہے کہ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ اِسے کس طرح کنٹرول کیا جاسکے گا‘‘۔