شمالی و جنوبی کوریا کے درمیان فٹ بال کی جنگ

جنوبی کوریا کے صدر مون جی ان اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جانگ ان نے چند ماہ قبل ایک ملاقات کے دوران 2032 کے اولمپکس مقابلے کے مشترکہ طور پر اپنے ملکوں میں انعقاد کے لیے کوشش کرنے سمیت کھیلوں کے فروغ پر اتفاق کیا تھا۔

شمالی کوریا نے تاریخ میں پہلی مرتبہ مردوں کے کسی فٹ بال میچ کی میزبانی کی اور یہ میچ دونوں حریف ملکوں شمالی و جنوبی کوریا کی ٹیموں کے درمیان منگل کو کھیلا گیا۔

میچ کے دوران دونوں ٹیموں کے کھلاڑی ایک دوسرے کو دھکے دیتے اور زور آزمائی کرتے رہے اور مقررہ وقت تک دونوں ٹیمیں کوئی گول نہ کرسکیں۔ اس طرح میچ برابری پر اختتام پذیر ہوا۔

جنوبی کوریا فٹبال ایسوسی ایشن کے نائب صدر چوئے یانگ ال کے مطابق ان کی ٹیم جب جمعرات کو شمالی کوریا پہنچی تو توقع تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان میچ دیکھنے کے لیے 50 ہزار شائقین گراؤنڈ میں موجود ہوں گے۔

 

لیکن سخت پابندیوں میں ہونے والے اس میچ کو دیکھنے کے لیے گراؤنڈ میں ایک تماشائی بھی موجود نہ تھا اور میچ کو نہ تو براہ راست نشر کیا گیا اور نہ ہی غیر ملکی میڈیا کو میچ دکھانے کی اجازت دی گئی۔

 

یہی نہیں فٹ بال کی عالمی تنظیم 'فیفا' کے صدر گیانی انفین تینو بھی یہ میچ دیکھنے کے لیے گراؤنڈ میں موجود تھے۔ اور خالی گراؤنڈ میں تنہا انہوں نے یہ میچ دیکھا۔

فیفا کے صدر انفین تینو کا کہنا ہے کہ میچ میں شرکت کرنے کے بعد انہیں بہت مایوسی ہوئی جب کہ وہ تماشائیوں کی غیر موجودگی سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے بہت حیران ہیں۔

 

نامور فٹ بال کلب ٹوٹینہم ہاٹ اسپر سے کھیلنے والے شمالی کوریا کے اسٹار فٹبالر سن ہونگ من اپنی ٹیم کی قیادت کر رہے تھے۔ اُن کے بقول شمالی کوریا کے کھلاڑیوں نے میچ کے دوران جارحانہ رویہ اپنایا اور وہ شکر گزار ہیں کہ تمام کھلاڑی زخمی ہوئے بغیر وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔

 

شمالی کوریا کی سرکاری نیوز ایجنسی نے میچ کے اختتام پر صرف دو سطروں پر مشتمل ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ "حملوں اور جوابی حملوں کا کھیل کسی نتیجے کے بغیر اختتام پذیر ہوا۔"

یاد رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایسے موقع پر یہ میچ کھیلا گیا جب شمالی کوریا کی طرف سے میزائل تجربات کیے جارہے ہیں۔

اس سے قبل فیفا کے صدر نے تجویز دی تھی کہ شمالی اور جنوبی کوریا مشترکہ طور پر 2023 میں کھیلے جانے والے خواتین ورلڈ کپ کی میزبانی کریں۔