برقعے پر مجوزہ پابندی پر غور کے لیے وقت درکار ہے: سری لنکا

اے پی

سری لنکا کی حکومت نے کہا ہے کہ برقع پہننے پر مجوزہ پابندی پر غور کے لیے اسے وقت درکار ہو گا۔

سری لنکا کے وزیرِ پبلک سیکیورٹی سارتھ وراسکیرا نے ہفتے کو کہا تھا کہ انہوں نے کابینہ سے مسلمان خواتین کے برقع پہننے پر پابندی کی منظوری چاہی ہے کیوں کہ ان کے بقول اس کا قومی سلامتی پر براہِ راست اثر ہو گا۔

سری لنکا کی حکومت کے ترجمان کہیلیا رام بکویلا کا کہنا ہے کہ پابندی ایک سنجیدہ فیصلہ ہے جس کے لیے مشاورت اور اتفاق رائے ضروری ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق کہیلیا رام بکویلا نے کابینہ کے فیصلوں کے اعلان کے لیے دی جانے والی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں بتایا کہ یہ فیصلہ مشاورت سے کیا جائے گا لہٰذا اس کے لیے وقت درکار ہے۔

قبل ازیں ایک پاکستانی سفارت کار اور اقوامِ متحدہ کے ماہر نے ممکنہ پابندی سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا۔

پاکستان کے سفیر سعد خٹک نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ پابندی صرف مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرے گی۔

دوسری جانب اقوامِ متحدہ کے خصوصی مندوب برائے مذہبی آزادی احمد شہید نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ یہ پابندی بین الاقوامی قانون اور مذہبی اظہار کی آزادی کے حقوق سے مطابقت نہیں رکھتی۔

خیال رہے کہ سال 2019 میں سری لنکا میں برقعے پر عارضی پابندی عائد کی گئی تھی۔

یہ پابندی بدھ مت اکثریت والے ملک سری لنکا میں ایسٹر کے موقع پر گرجہ گھروں اور ہوٹلوں میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعد عائد کی گئی تھی۔

ان دھماکوں میں 260 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ جب کہ مقامی عسکریت پسند گروہ نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

Your browser doesn’t support HTML5

سری لنکا میں نقاب پہننے پر پابندی

سری لنکا کی جانب سے ہزار سے زیادہ مدارس کو بھی بند کرنے کا منصوبہ ہے کیوں کہ ان کے بقول یہ غیر رجسٹرڈ ہیں اور قومی تعلیمی پالیسی پر عمل نہیں کر رہے۔

یہ مدِ نظر رہے کہ دو کروڑ 20 لاکھ آبادی والے ملک سری لنکا میں تقریباً نو فی صد مسلمان ہیں۔ جب کہ 70 فی صد سے زائد آبادی بدھ مت سے تعلق رکھتی ہے۔

اس کے علاوہ 15 فی صد آبادی ایسی ہے جو تامل اقلیت پر مشتمل ہے جس میں زیادہ ہندو مذہب کے ماننے والے بھی شامل ہیں۔