شہاب ثاقب کی برسات

شہاب ثاقب ہرسال 17جولائی سے 24 اگست کے درمیانی عرصے میں زیادہ تیزی سے گرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن 11 اور 13اگست کی درمیانی راتوں میں یہ نظارہ اپنے عروج پر ہوتا ہے

پیراورمنگل کی درمیانی شب دنیا بھرمیں ٹوٹے ہوئے ستاروں یا شہاب ثاقب کی بارش کا دلکش منظردیکھا گیا ۔ ٹوٹے ستاروں کی یہ بارش ہرسال سوئفٹ ٹاٹل swift tuttle)) نامی دم دار ستارے کے دم سےگرنے والےملبے کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ یہ دمدارستارہ آخری بار زمین کے نزدیک سے1992 میں گزرا تھا شہاب ثاقب کی برسات کو' پیراسائیڈ میٹیئر شاور' کا نام سے یاد رکھا جاتا ہے جو ہرسال وسط جولائی اوراگست کےدرمیانی عرصے میں واضح طور پردکھائی دیتی ہے ۔

دنیا بھر کی طرح برطانیہ میں بھی 12 اور 13اگست کی درمیانی شب آسمان پررنگ اورروشنی کی بارش اپنےعروج پر رہی ۔ آسمان کی تاریکی میں مدھم چاندنی نے دیکھنے والوں کے لیے اس منظر کو اور بھی دلکش بنا دیا تھا جہاں ہزاروں لوگوں نے نہ صرف اس منظر کو کیمرے کی آنکھ سے قید کیا بلکہ اپنے مشاہدے اور تصاویر کو سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھی دنیا بھر کے لوگوں کے ساتھ شئیر کیا۔


خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا نے توقع ظاہر کی تھی کہ اس برس ایک گھنٹہ میں تقریباً 60 سے80 ستارے ٹوٹتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ شہاب ثاقب کا بہترین نظارہ چاند ڈھلنے کے بعد مکمل تاریکی میں شروع ہوا جوصبح صادق تک دیکھا گیا جسے عام انسانی آنکھ سے بھی دیکھا گیا۔ تاہم یہ دلکش منظر شمالی نصف کرہ میں زیادہ واضح طور پردیکھا گیا جبکہ ،آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ اور جنوبی امریکہ میں یہ منظرزیادہ صاف طور پر دکھائی نہیں دیا جا سکا۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ، انسانی آنکھ نے پہلی بار شہاب ثاقب کی بارش کا مشاہدہ 2000 برس قبل کیا تھا۔ شہاب ثاقب ہرسال 17جولائی سے 24 اگست کے درمیانی عرصے میں زیادہ تیزی سے گرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن 11 اور 13اگست کی درمیانی راتوں میں یہ نظارہ اپنے عروج پر ہوتا ہے جب ایک گھنٹے میں سینکڑوں چمکتے ٹوٹے ستارے ایک ساتھ انتہائی تیزرفتاری سےزمین کی فضا میں جلتے ہوئے چراغ کی مانند داخل ہوتے ہیں اورسکینڈوں میں دھواں بن کر ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔


سائنسدانوں کے مطابق،دمدار ستارے سورج کے گرد ایک مدار میں گھومتے ہیں اور ایک سو تینتیس برس میں مدار کے ایک چکرکومکمل کرتے ہیں جس وقت یہ مدار کے گرد گھومتے ہیں تو ان کی دم سورج کے مخالف سمت میں پھیلتی نظر آتی ہے جو اپنے پیچھے خلاء میں کائناتی آلودگی چھوڑ جاتی ہے۔

دمدار ستاروں کی دم سے گرنے والا ملبہ گرد، منجمد برفیلے کنکراور بے شمار گیسوں کا مجموعہ ہوتا ہےاورجب ہر سال ہماری زمین سورج کے گرد چکر لگاتی ہوئی دمدارستارے کی چھوڑے ہوئے ملبے کے مقام پر پہنچتی ہے اورہزاروں برس پرانے آلودہ بادلوں میں سے گزرتی ہے تویہ گردو غبار اوربرفیلےکنکربڑی تیزی سے زمین کی فضا میں داخل ہوجاتے ہیں اورزمین کی فضا میں یہ ذرات روشنی کے جھماکوں کی صورت میں پھیلتے ہیں اور ہمیں گرتے ہوئے ستاروں کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں۔

آسٹرونومر ڈاکٹر ڈیوڈ وائٹ ہاؤس کے مطابق،'' ٹوٹے ہوئے ستاروں کی روشنی آسمان کے چمکتے ستاروں کی روشنی ، چاند کی روشنی اور سورج کی روشنی سے مختلف ہوتی ہے اسے ایک طلسماتی سفید روشنی کہا جا سکتا ہے''۔

بیل فاسٹ کوئینزیونیورسٹی کے پروفیسرفٹزسمن نے کہا کہ ،''یہ دمدار ستارہ دوبارہ ہماری زمین کے نزدیک سے 2125 میں گزرے گا لیکن ہرسال زمین جب دمدار ستارے کےچھوڑے ہوئے ملبے کے بادلوں میں سے گزرتی ہے تو ہمیں اس دمدار ستارے کی یاد دلا جاتی ہے''۔