کچھوؤں کے طویل سفر پر ایک انوکھی فلم

کچھوؤں کے طویل سفر پر ایک انوکھی فلم

کم بہت لوگوں کو معلوم ہوگا کہ سمندروں میں رہنے والے کچھوئے کسی ایک ساحلی علاقے تک ہی محدود نہیں رہتے بلکہ طویل سفر کرتے ہیں۔ ان کے سفر کی وجوہات مختلف ہوتی ہیں۔ اکثر اوقات انہیں محفوظ مقامات پر انڈے دینے کے لیے طویل فاصلے طے کرنے پڑتے ہیں۔ فلم ساز نک اسٹنگر نے اپنے کیمرے کے ساتھ ایک مادہ کچھوے کا پیچھا کیا اور اس کے طویل سفر کو ایک دستاویزی فلم کی شکل میں فلم بند کیا۔

اس فلم کا آغاز امریکی ریاست فلوریڈا کے ساحل پر موجود انڈوں سے نکلےہوئے کچھوے کے بچوں سے ہوتا ہے۔ ۔ جہاں وہ گرتے پڑتے اوراپنے آپ کو کیکڑوں سے بچاتے ہوئے سمندر میں ایک طویل سفر کا آغاز کرتے ہیں۔

http://www.youtube.com/embed/j6kpXlgCsbw

اس ڈاکومینٹری میں ان میں سے ایک مادہ کچھوے کے سفر کو فلمبند کیا گیا ۔ فلمساز نے اس کچھوے کی کہانی کو قدرت کی جانب سے بچاؤ کی بہترین کہانی قرار دیا ہے۔

برطانوی اداکارہ مرانڈا رچرڈ سن نے اس فلم میں مادہ کچھوے کے 15 ہزار کلومیٹر طویل سفر کی کہانی بیان کی ہے۔
ڈاکومینٹری فلم کی ہیروئین راستے میں جیلی فش کھاتی ہے۔ جبکہ اس سفر کے کچھ حصے میں ڈولفنز اور چھوٹی شارک مچھلیاں بھی اس کا ساتھ دیتی ہیں۔

ان کا کہناہے کہ وہ انڈے دینے واپس اسی ساحل پر جاتے ہیں جہاں وہ خود پیدا ہوئے تھے۔ اگر ساحل نہ ہو تو وہ اپنے انڈے نہیں دے سکتے۔

1987ءمیں امریکہ میں جھینگے پکڑنے والوں کے لیے ایک قانون کے تحت TED کا استعمال یقینی بنایا گیا ۔ تاکہ اگر کچھوے جال میں آ بھی جائیں تو خود ہی باہر نکل سکیں۔

رچرڈسن کہتی ہیں کہ اس حوالے سے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ مادہ کچھوا اپنے انڈے دینے کے لیے واپس امریکی ریاست فلوریڈا کے ساحلوں پر جاتی ہے۔

رچرڈ سن کا کہناہے کہ اس فلم کی مدد سے نوجوان نسل میں سمندری حیات کے تحفظ کے لیے شعور پیدا کیا جا سکے گا۔ جس سے کچھووں کی نسل کو بچانے میں مدد ملے گی۔