عالمی تعلیم کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے ، گورڈن براؤن نے کہا ہے کہ افغانستان میں خواتین کو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم رکھنے پر انٹرنیشنل کرمنل کورٹ (آئی سی سی) کو طالبان کے خلاف تحقیقات اور الزامات کی پیروی کرنی چاہیے۔
منگل کو ایک بیان میں گورڈن براؤن کا کہنا تھا کہ اب تک سامنے آنے والے قانونی مؤقف سے واضح ہوتا ہے کہ افغان لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنا اور خواتین کے روزگار پر پابندی لگانا صنفی امتیاز ہے جس کو انسانیت کے خلاف جرم سمجھنا چاہیے اور اس کا مقدمہ آئی سی سی میں چلایا جاناچاہیے۔
گورڈن براؤن 2007 سے 2010 کے درمیان برطانیہ کے وزیرِ اعظم رہے ہیں اور اب وہ عالمی تعلیم کےلیےاقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی ہیں۔
گورڈن براؤن کے مطابق وہ آئی سی سی سے رابطے میں ہیں اور انہوں نے قانونی آرا بھی ارسال کر دی ہیں۔انہوں نے نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں قائم انٹرنیشنل کرمنل کورٹ پر بھی زور دیاکہ وہ افغانستان میں خواتین پر پابندیاں عائد کرنے والوں کے خلاف تحقیقات کرے اور مقدمہ چلائے۔
ان کا یہ بیان افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان کے اقتدار کے دو برس مکمل ہونے پر سامنے آیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اگست 2021 میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے افغانستان سے انخلا کے بعد طالبان نے انتظامِ حکومت سنبھال لیا تھا۔ بعدازاں انہوں نے مختلف مراحل میں بچیوں اورخواتین کے تعلیم کےحصول اور روزگار پر پابندی عائد کر دی تھی۔
گورڈن براؤن نے پانچ تجاویز بھی پیش کی ہیں جن میں انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں طالبان کے خلاف مقدمہ چلانا، مختلف شخصیات پر پابندی عائد کرنا، طالبان کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کے لیے مسلمان رہنماؤں کا ایک وفد بھیجنا، تعلیم کے لیے مالی امداد کی فراہمی اور انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن خفیہ اسکولوں کے ذریعے لڑکیوں کی تعلیم جاری رکھنا شامل ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے نے مسلم اقوامِ سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کے شہر قندھار ایک وفد بھیجیں جو طالبان کے سپریم کمانڈ ملا ہبت اللہ اور ان کے قریبی ساتھیوں سے ملاقات کرے اور انہیں خواتین کی تعلیم اور روزگار پر عائد پابندی کوختم کرنے پر آمادہ کرے۔
SEE ALSO: افغانستان سے واپسی کا فیصلہ مشکل مگر درست تھا، انٹنی بلنکنان کے بقول، افغانستان میں خواتین پر عائد پابندیوں کی بنیاد قرآن یا اسلام کے مطابق نہیں ہے جب کہ ملا ہبت اللہ نے اب تک ایسا کوئی بھی اشارہ نہیں دیا جس سے واضح ہو کہ پابندی کے یہ احکامات واپس لیے جا سکتے ہیں۔
گورڈن براؤن نے کہا کہ طالبان کو یہ پیشکش کی جانی چاہیے کہ اگر وہ خواتین کے حقوق اور تعلیمی اداروں میں ان کی واپسی کو یقینی بناتے ہیں تو افغانستان کے لیے وہ تعلیمی امداد بحال کر دی جائے گی جو بیس برس تک دی جارہی تھی۔
انہوں نے ان اطلاعات کا بھی ذکر کیا جن کے بارے میں اقوامِ متحدہ کے بعض عہدہ دارپہلے ہی بتا چکے ہیں کہ لڑکیوں کی تعلیم کی بحالی کے حوالے سے خود طالبان میں بھی تفریق موجود ہے۔
گورڈن براؤن کے بقول انہیں یقین ہے کہ افغانستان کی وزارتِ تعلیم میں متعدد لعہدہ داراور بلاشبہ بہت سے اساتذہ ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ لڑکیاں تعلیمی اداروں میں واپسی آئیں۔