ننگرہار: امریکہ نے داعش کے ٹھکانے پر ’’پہلا سب سے بڑا غیر جوہری بم‘‘ گرایا

امریکی لڑاکا طیاروں نے جمعرات کے روز شمال مشرقی افغانستان میں سرنگ پر مشتمل داعش کے ایک کمپلیکس پر سب سے بڑا بم گرایا، جس کا وزن 10000 کلوگرام تھا، جو سب سے بڑا غیر جوہری امریکی ہتھیار ہے، جسے عام زبان میں ’مدر آف آل بامبز‘ کہا جاتا ہے۔

ابھی تک یہ تفصیل میسر نہیں آیا ننگرہار میں ہونے والے اس بڑے دھماکے کے نتیجے میں کتنی ہلاکتیں یا تباہی واقع ہوئی۔

’ماسو آرڈننس ایئر بلاسٹ (ایم او اے بی) بم، جسے ایک عشرے سے زیادہ عرصہ قبل تشکیل دیا گیا تھا، ابھی تک کسی حربی کارروائی میں استعمال نہیں کیا گیا تھا۔

صوبہٴ ننگرہار کے گورنر، عطا اللہ خوگیانی نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ مقامی اہل کاروں کو بم کے بارے میں پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔

واشنگٹن سے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ اُنھوں نے داعش کے انتہا پسندوں کے خلاف فوجی حملے کی مکمل طور پر منظوری دی تھی۔ اُنھوں نے اس مشن کے ہدف کے بارے میں سوال کا جواب دینے سے احتراز کیا۔ لیکن کہا کہ ہو سکتا ہے کہ اس سے شمالی کوریا کو ایک زوردار پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہو، جس کے لیے بتایا جاتا ہے کہ وہ بہت جلد جوہری ہتھیاروں کے مزید تجربے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ٹرمپ نے جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’مجھے نہیں معلوم اگر اس سے (شمالی کوریا کو) پیغام ملتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایسا ہے یا نہیں۔ شمالی کوریا ایک مسئلہ ہے۔ اس معاملے کو دیکھ لیں گے‘‘۔

امریکی فوج نے کہا ہے کہ اُس نے افغانستان میں داعش کے زیر زمین کمپلیکس پر ’’ہتھیاروں کے اپنے ذخیرے کا طاقتور ترین غیر جوہری بم گرایا ہے‘‘۔

پینٹاگان کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’جی بی یو 43‘ بم جمعرات کے روز صوبہٴ ننگرہار کے قریب اچین ضلع پر داعش کے سرنگوں پر مشتمل کمپلیکس پر گرایا گیا، جو پاکستانی سرحد کے قریب واقع علاقہ ہے۔

اس ’ڈوائس‘ کو ’ماسو آرڈننس ایئر بلاسٹ (ایم او اے بی) بم‘ کہا جاتا ہے، جس میں 11 ٹن وزنی بارودی مواد تھا۔ اپنے نام کے مخفف کے لحاظ سے، امریکی فضائیہ میں عرف عام میں اِسے ’مدر آف آل بامبز‘ کہا جاتا ہے۔

پینٹاگان ترجمان، ایڈم اسٹمپ نے کہا ہے کہ اِس غیر جوہری بم کو لڑائی میں پہلی بار استعمال کیا گیا۔

وائٹ ہاؤس ترجمان، شان اسپائسر نے واشنگٹن میں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ اُنھیں اس بات کا علم نہیں آیا صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس فوجی اقدام کی منظوری دی تھی۔ لیکن، اُنھوں نے بتایا کہ ’’یہ بات لازم ہے کہ ہم اُنھیں (داعش کو) کسی سرگرمی کی گنجائش نہ دیں، اور ہم نے ایسا ہی کیا‘‘۔

افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر، جنرل جان نکلسن نے کہا ہے کہ ’’یہ بم داعش کی کارروائیوں کے جواب میں گرایا گیا، جو اپنے بچاؤ میں زمین دوز پناہ گاہ (بنکروں) اور سرنگوں میں چھپ کر وار کیا کرتے تھے‘‘۔

نکلسن کے بقول، ’’یہی درست طریقہ تھا تاکہ رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے اور دولت اسلامیہ (خوراسان) کے خلاف اس حربی کارروائی کو کامیابی سے ہم کنار کیا جا سکے‘‘۔

پینٹاگان نے اِس بات کا عندیہ نہیں دیا آیا اس کے نتیجے میں داعش کے اس مضبوط ٹھکانے کو کتنا نقصان پہنچا یا اس میں کتنی ہلاکتیں واقع ہوئیں۔

اس سے قبل، وائٹ ہاؤس ترجمان شان اسپائسر نے بتایا کہ امریکہ نے جمعرات کے روز مقامی وقت کے مطابق ’’سات بجے شام‘‘، صوبہٴ ننگرہار میں داعش کے دور افتادہ ٹھکانے پر ’’سب سے بڑا غیر جوہری بم‘‘ گرایا، جہاں اِس شدت پسند گروپ کا سرنگوں اور غاروں پر مشتمل کمپلیکس موجود تھا۔

بیان میں ترجمان نے بتایا کہ ’’جے بی یو 43‘‘ غیر جوہری بم، سب سے بڑا ہتھیار ہے جو داعش کے خلاف استعمال کیا گیا۔ بقول اُن کے ’’امریکہ دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی کو سنجیدگی سے لیتا ہے، اور ہم پُر عزم ہیں کہ داعش کو متحرک ہونے کی کوئی جگہ نہ دی جائے‘‘۔

شان اسپائسر نے بتایا کہ ’’داعش کے اِس ٹھکانے سے امریکی افواج اور مشیروں پر حملے کیے جاتے رہے ہیں‘‘۔

بعدازاں، اخباری بریفنگ کے دوران، ایک سوال کے جواب میں، ترجمان نے کہا کہ ’’اِس بات کو مدِ نظر رکھا گیا تھا کہ شہری آبادی کو نقصان نہ پہنچے‘‘۔

اِس سے قبل، ’سی این این‘ نے خبر دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ’’یہ غیر نیوکلیئر بم سنگلاخ دور افتادہ علاقے پر گرایا گیا، جہاں داعش کا محفوظ ٹھکانہ تھا، جو سرنگوں اورر غاروں پر مشتمل تھا‘‘۔

فوری طور پر یہ معلوم نہیں ہو سکا آیا ’’ہدف کو کتنا نقصان پہنچا‘‘۔

ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق، یہ بم امریکی فضائیہ کے ’سی 130 طیارے‘ سے ہدف پر گرایا گیا؛ جس خطے میں کئی ہفتوں سے امریکی افواج موجود تھیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، اس غیر جوہری بم میں 11 ٹن ’ٹی اینڈ ٹی‘ مواد تھا، ’’جس سے بہت بڑا دھماکہ ہوا ہوگا‘‘۔

پینٹاگان کے حوالے سے ’سی این این‘ نے بتایا ہے کہ یہ 21600 پاؤنڈ وزنی بم تھا، جسے اس سے پہلے کسی لڑائی میں استعمال نہیں کیا گیا۔

اِس بم کو ’مدر آف آل بامبز‘ کہا جا رہا ہے؛ جسے نشانے پر گرائے جانے کا مقصد یہ بتایا جا رہا ہے تاکہ داعش کے شدت پسندوں کا صفایا کیا جا سکے۔

یہ علاقہ پاکستانی سرحد کے قریب واقع ہے، اور ہدف کا مقصد یہ تھا کہ داعش کے شدت پسندوں کو سرحد پار بھاگ نکلنے کا موقعہ نہ مل سکے۔

ابھی تک افغانستان یا پاکستان سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔

افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ ضلع اچین میں واقع داعش کے سرنگ والے کمپلیکس پر ہونے والے حملے میں واقع ہونے والی ہلاکتوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

ادھر، سابق صدر حامد کرزئی نے حملے کی مذمت کی ہے۔ بقول اُن کے، ’’یوں لگتا ہے کہ افغانستان کو خطرناک ہتھیاروں کی تجربہ گاہ بنایا جا رہا ہے‘‘۔

اِس سے قبل، مشرقی افغانستان سے بدھ کی شام گئے موصول ہونے والی خبروں میں حکام نے بتایا تھا کہ فوج کی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں شدت پسند گروپ داعش کے تین کمانڈروں سمیت تقریباً 50 جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ رات کے دوران ہونے والی یہ ہلاکتیں پاکستان کی سرحدکے قریب واقع صوبہ ننگرہار کے ضلع اچین میں ہوئیں جو داعش کا گڑھ ہے۔

افغان فوج کے ایک علاقائی ترجمان نے ’وی او اے‘ کی ’افغان سروس‘ کو بدھ کو بتایا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں 12 غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ تاہم، ان کی شہریت سے متعلق معومات فراہم نہیں کیں۔ داعش نے افغان عہدیدار کے دعوؤں پر تاحال کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔


حال ہی میں افغانستان کی خصوصی فورسز نے، جنہیں فضائیہ اور امریکہ کے مسلح ڈرون طیاروں کی مدد بھی حاصل ہے، ننگرہار کے کئی اضلاع میں داعش کے انتہا پسندوں کو ختم کرنے کے لیے ایک بڑی کارروائی شروع کی ہے۔

افغان اور امریکی کمانڈروں کا کہنا ہے کہ ’حمزہ‘ نامی آپریشن کے دوران قابل ذکر پیش رفت ہوئی ہے جس میں داعش کے سینکڑوں حامیوں کو ہلاک اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ کر دیا گیا ہے۔

رواں سال مارچ میں امریکہ کی فضائی کارروائیوں میں داعش کے 200 سے زائد جنگجوؤں کو ہلاک کیا گیا۔

امریکہ کی فوج کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو پاکستان میں ہونے والے فوجی آپریشن کے دوران سرحد پار فرار ہو کر داعش کی صفوں میں شامل ہوگئے ہیں۔