عراق میں داعش ’’کمزور تر ہوتی جا رہی ہے‘‘: امریکی جنرل

فائل

میجر جنرل گیری ولسوکی عراقی دارالحکومت میں ہونے والی تازہ خونریزی پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے، کہا ہے کہ ایک اجلاس میں داعش کے زیرِ تسلط علاقوں کو واگزار کرانے اور موصل کے شمالی شہر کو فتح کرنے کے حوالے سے عراقی کارروائی پر بحث کی گئی

ایک امریکی فوجی کمانڈر نے کہا ہے کہ عراق میں داعش کے باغی ’’کمزور سے کمزور تر ہوتے جارہے ہیں‘‘، حالانکہ جہادیوں نے بغداد میں ہونے والے تین خودکش بم حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، جن میں کم از کم 88 افراد ہلاک ہوئے۔

میجر جنرل گیری ولسوکی عراقی دارالحکومت میں ہونے والی تازہ خونریزی پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک اجلاس میں داعش کے زیرِ تسلط علاقوں کو واگزار کرانے اور موصل کے شمالی شہر کو فتح کرنے کے حوالے سے عراقی کارروائی کو زیر غور لایا گیا۔
ولسوکی عراق سے فون لائن پر واشنگٹن سے باہر واقع وزارت ِدفاع کے دفتر میں موجود اخباری نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ اُنھوں نے کہا کہ عراقی افواج باغیوں کے قبضے میں جانے والے خطے کے دوبارہ حصول کے حوالے سے ’’خاصی پیش رفت ‘‘کر چکی ہیں۔

حالیہ ہفتوں کے دوران امریکہ نے کہا ہے کہ عراق اور شام میں داعش کے لڑاکوں کے خلاف نبرد آزما عراقی افواج اور دیگر دستوں نے جہادیوں کے زیر قبضہ علاقے کا 40 فی صد واگزار کرا لیا ہے۔

تاہم، ولسوکی نے کہا کہ عین ممکن ہے کہ اعداد اس سے بھی زیادہ ہوں، 45 یا 50 فی صد۔ بقول اُن کے، ’’میں شرح فی صد کو نہیں دیکھ رہا۔ میری نظریں اِس بات پر لگی ہوئی ہیں کہ دراصل وہ کہاں کھڑے ہیں اور بہت جلد وہاں نہیں ہوں گے‘‘۔

اُنھوں نے موصل پر عراقی حملے کے نظام الاوقات کا ذکر نہیں کیا، جسے داعش کے جنگجوؤں نے دو برس سے قبضے میں لے رکھا ہے۔ لیکن، اُنھوں نے کہا کہ عراقی افواج، جنھیں امریکی تربیت کاروں اور مشیروں کی مدد حاصل ہے، وہ اِس وقت شہر کے جنوب میں 35 سے 40 کلومیٹر دور تعینات ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ عراقی افواج ایک ایک کرکے سارے دیہات کو زیر کر رہی ہیں۔ ولسوکی نے کہا کہ داعش کے عسکریت پسند ’’ہر روز علاقہ کھوتے جارہے ہیں۔ جو بات ہم نے دیکھی ہے وہ یہی ہے کہ افواج کو تعینات کرنے کی اُن کی مجموعی استعداد ڈھیلی پڑ چکی ہے‘‘۔

ولسوکی نے کہا کہ ’’واضح طور پر عراقی یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ اُنہی کی لڑائی ہے۔ اور وہ اِس میں سُرخرو ہو رہے ہیں‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ امریکی فوجوں کو ’’لڑائی میں حربی سبقت کا درجہ حاصل ہے۔ ہم یہاں اُن کی (عراقی) لڑائی میں مدد کے لیے موجود ہیں‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ سنہ 2003 اور 2011 تک کی مدت کے دوران جب امریکہ عراق میں جنگ لڑ رہا تھا، جس میں عراقی مطلق العنان صدام حسین کو اقتدار سے ہٹایا گیا، امریکی افواج اِس وقت اپنے طور پر کام نہیں کرتیں۔ لیکن، عراقیوں کی جانب سے تیار کردہ خصوصی کارروائی میں منسلک ہو جاتی ہیں‘‘۔