امریکی اخبارات سے: افغان فوج اور میدان جنگ کے فرائض

’پچھلے ماہ دوحہٰ میں طالبان کے دفتر کے افتتاح کے معاملے سے ٹھیک طرح نہیں نِمٹا گیا۔ جسے افغان قیادت میں شروع ہونے والے امن کے مرحلے سے تعبیر کیا گیا تھا‘: واشنگٹن پوسٹ
’واشنگٹن پوسٹ‘ کا ایڈیٹوریل بورڈ کہتا ہے کہ، جیسا کہ اس سے پہلے بھی کہہ چکا ہے کہ، ماضی قریب میں افغاستان اتنی پیش رفت کرچکا ہے کہ بیشتر امریکیوں کو اس کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ افغان فوج نے اس سال موسم گرما میں میدان جنگ کے پُورے فرائض اپنے ذمّے لے لئے۔ جس کے بعد سے، اُس نے طالبان کو دبائے رکھا ہے اور پچھلے ہفتے صدر حامد کرزئی نے اپنے ناقدین کو ایک نئے انتخابی قانون پر دستخط کرکے ورطہٴ حیرت میں ڈال دیا، جِس سے ملک کی تاریخ میں پہلی بار پُر امن طریقے سے انتقالِ اقتدار ممکن ہو جائے گا۔

اخبار کہتا ہے کہ اگرچہ اوبامہ انتظامیہ کو اس پیش رفت کے بیشتر حصے کا کریڈٹ جاتا ہے۔ یہ حقیقت بھی مسلّم ہے کہ اُس سے دو بڑی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں، جن کی وجہ سے اس کی نفی ہونے کا خطرہ ہے ۔ اوّل یہ کہ پچھلے ماہ دوحہٰ میں طالبان کے دفتر کے افتتاح کے معاملے سے ٹھیک طرح نہیں نِمٹا گیا، جسے افغان قیادت میں شروع ہونے والے امن کے مرحلے سے تعبیر کیا گیا تھا۔

لیکن، جو اس وجہ سے غتربُود ہوگیا، کیونکہ طالبان نے دعویٰ کیا کہ وُہ افغانستان کی امارات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا دعویٰ تھا جس سے اخبار کے بقول افغانستان کی موجودہ حکومت کو جیسے اب کوئی تسلیم نہیں کرتا۔ چنانچہ، مسٹر کرزئی نے غُصّے میں آکر امریکہ کے ساتھ اُس معاہدے پر ہونے والے مذاکرات منسوخ کر دئے، جس کے تحت سنہ 2014 کے بعد امریکی مشیروں اور انسداد دہشت گردی کے ماہرین کی ایک جماعت افغانستان میں پیچھے چھوڑ دی جاتی۔

مسٹر کرزئی کے اس اشتعال انگیز اقدام کے بعد وہائٹ ہاؤس دوسری غلطی یہ تاثُر دینا تھا کہ مذاکرات میں امریکی فوجی عملے کی مکمّل واپسی پر بات ہونی ہے، حالانکہ یہ سٹرٹیجک شراکت داری کے اُس معاہدے کے بالکل منافی بات ہے جو دونوں حکومتوں اور نیٹو کے مابین طے پا چُکا ہے۔ اور جس میں واضح کیا گیا ہے کہ سنہ 2014 کے بعد کاروائیوں کی نوعیت کیا ہوگی۔ اور یہ صدر اوبامہ کے بار بار کے ان بیانوں کے بھی منافی ہے کہ امریکہ افغانستان کی برابر پُشت پناہی کرتا رہے گا۔

علاوہ ازیں، اس کا مطلب تو اُسی حماقت کو دُہرانا ہوگا جب1989 ءمیں ملک سے سویت فوجوں کی واپسی کے بعد اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا تھا، جس کے بعد خانہ جنگی میں طالبان بر سر اقتدار آگئے تھے اور القاعدہ کو ایک محفُوظ آماجگاہ مل گئی تھی۔

اخبار کہتا ہے کہ یہ سوچنا کہ جُھوٹ مُوٹھ کی دہمکی دے کرمسٹر کرزئی پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔ درست نہیں۔ کیونکہ، اس سے اُلٹا نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس خیال سے امریکہ افغانستان سے مکّمل طور پر نکل آئے گا طالبان کو شہ ملے گی اور ہو سکتا ہے کہ وُہ مزید بات چیت کرنے سے انکار کردیں۔ اس سے پاکستان کے لئےبھی اُن کی حمائت برقرار رکھنے کا جواز پیدا ہوگا۔

اخبار کی نظر میں مسٹر اوبامہ کے لئے مسٹر کرزئی سے نمٹنے کا بہترین طریقہ دو ٹوک الفاظ میں اُنہیں یہ بتانا ہے کہ امریکہ کتنی فوج افغانستان میں پیچھے چھوڑنے کے لئے تیار ہے۔ اور چُونکہ بیشتر افغان اس قسم کی فورس کی موجودگی کے لئے تیار ہیں،۔ اس سے افغان صدر پر دباؤ پڑےگا کہ وہ اس پر معاہدہ کرنے کے لئے بات چیت کریں۔


واشنگٹن کے انٹرنیٹ روزنامے ’دی ہِل‘ نے مختلف ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ روسی حکام نے امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے سابق ملازم، ایڈورڈ سنوو ڈن کو سفری دستاویزات فراہم کر دی ہیں، جس کے بعد وہ ماسکو کے ہوائی اڈے سے باہر آنے کے لئے آزاد ہے۔ سنوڈن نے اس ایجنسی کی وسیع پیمانے کی جاسوسی سرگرمیوں کی تفصیلات طشت از بام کرنے کے غیر ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی ہے اور ماسکو پہنچنے پر اوبامہ انتظامیہ کے عُہدہ دروں نے روس پر زور دیا تھا کہ سنووڈن کو پناہ نہ دے۔ اور صدر اوبامہ نے روسی صدر ولادی میر پوٹن کو اس سلسلے میں ذاتی ٹیلیفون بھی کیا تھا۔

’کرسچن سائینس مانٹر‘ کے مطابق، واشنگٹن نے سنووڈن کو ایک عام مجرم قرار دے کر اُسے امریکہ کے حوالے کرنے کی اپیل کی تھی۔ اگرچہ، دونوں ملکوں کے مابین قیدیوں کے تبادلے سے متعلّق کوئی باقاعدہ معاہدہ نہیں ہے۔

اخبار نے روسی وزارت داخلہ کے ایک ترجمان کے حوالے سے بتایا ہے کہ ماضی میں روس نے جب بھی انٹرپول کی وساطت سے امریکہ سے مطلوبہ مجرم ا س کے حوالے کرنے کی درخواست کی، تو اُس کا جواب تک نہ دیا گیا۔

’نیو یارک پوسٹ‘ اخبار کی رپورٹ ہے کہ مصری فوج کے ہاتھوں اسلام پسند صدر محمد مُرسی کا تختہ اُلٹے جانے کے بعد حقوق انسانی کی تنظیموں نے سیکیورٹ افواج سے درخواست کی ہے کہ وہ عیسائی اقلیت کے تحفّظ کے لئے زیادہ موثّر کاروائی کریں۔ یہ اپیل لکسور شہر میں مُشتعل ہجوم کے ہاتھوں چار عیسائیوں کی ہلاکت کے بعد کی گئی ہے۔

مصر کی ساڑھ آٹھ کروڑ کی آبادی کا تقریباً دس فی صد عیسائیوں پر مُشتمل ہے۔