امریکی اخبارات سے: نیوی یارڈ میں گولیاں چلنے کی واردات

’کرسچن سائینس مانٹر‘ نے کہا ہے کہ نیوی یارڈ کے اِس قتل ِعام کے بارے میں اَن گنت سوال پیدا ہوتے ہیں جو نیوی کے آران الیکسس نامی ایک سابق الیکٹریشن کے ہاتھوں سر زد ہوا
یہاں واشنگٹن میں نیوی یارڈ میں پیر کے روز گولیوں کی جو بوچھاڑ کی گئی اور جِس میں 12 انسان حرام موت مارے گئے، ’کرسچن سائینس مانٹر‘ کے بقول، یہ پچھلے چار سال کے دوران، کسی امریکی فوجی تنصیب پر ہونے والا تیسرا ایسا حملہ تھا۔ اور اخبار کہتا ہے کہ نیوی یارڈ کے اِس قتل ِعام کے بارے میں اَن گنت سوال پیدا ہوتے ہیں جو نیوی کے آران الیکسس نامی ایک سابق الیکٹریشن کے ہاتھوں سر زد ہوا۔

لیکن، اخبار کے بقول، جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ امریکی فوجی تنصیبات اور اُن میں کام کرنے والوں کو اپنی ہی سرحدوں کے اندر نشانہ بنائے جانے کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اِس پر صدر اوبامہ کا کہنا تھا کہ پیر کی اِس شُوٹنگ میں امریکی فوجی اور سویلین عملے کو ہدف بنایا گیا۔ ملک سے باہر خدمات سرانجام دینے والوں کو جِن خطروں سےپالا پڑتا ہے وہ سب کے علم میں ہے، لیکن پیر کے روز جس قسم کا تشدُّد ہوا ہے اس کا کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا۔

اخبار کہتا ہے کہ یہ سانحہ اُس واقعے کے ایک ماہ سے کم عرصے کے بعد پیش آیا ہے، جس میں امریکی فوج کے ایک سابق ماہر نفسیات کو میجر کے عہدے سے ہٹا کر اُس قتل عام کے لئے موت کی سزا سنائی تھی جو اُس نے سنہ 2009 میں فورٹ ہُڈ کے فوجی اڈّے پربرپا کیا تھا، اور تیرہ فوجیوں کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔نِدال حسن نامی اس مسلمان امریکی نے اقبال جرم کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی شُوٹنگ کا مقصد افغانستان جانے والے امریکی فوجیوں کو ہلاک کرنا تھا، تاکہ وہ وہاں پُہنچ کرطالبان لیڈروں اور جنگجوؤں کو نہ ہلاک کر سکیں۔

اِسی طرح، اخبار یاد دلاتا ہے کہ سنہ 2010 میں ایف بی آئی نے پینٹاگان کی مرین کور کی تنصیبات اور خود پینٹاگان کی کھڑکیوں پر اور فوجی بھرتی کے دفاتر پر ہونے والی شُوٹنگ کی تحقیقات کی تھی جس میں البتہ کوئی زخمی نہ ہوا تھا۔ سنہ 2011 میں ایف بی آئی نے یونا تھن ملاکُو نامی ایک مرین رزروَسٹ کو عراق اور افغانستان کی جنگوں سے واپس آنے والے امریکی فوجیوں کی قبروں کے کتبوں کو روغن سے مسخ کرتے ہوئے پکڑ لیا تھا۔ صومالیہ کے اس سابقہ باشندے کے خاندان والوں کا کہنا تھا کہ مرین کور میں بھرتی ہونے کے بعد، وہ بدل گیا تھا۔ خود اُس نے تفتیش کاروں کو بتایا تھا کہ سنہ 2003 میں عراق کی جنگ شروع ہونے کےساتھ وُہ انتہا پسند ہوگیا تھا۔ جنوری میں ملاکو کو 25 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔


اخبار کہتا ہے کہ پیر کو امریکی فوجی عملے پر اس حملے میں امریکہ کے نیول سی سسٹم کے ہیڈکوارٹر کو نشانہ بنایا گیا تھا، جہاں تین ہزار افراد کام کرتے ہیں، اور جس کے ذمّےبحریہ کے جہازوں اور آبدوز کشتیوں کی خریداری اور ان کی مرمّت اور دیکھ بھال ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ اس تنصیب کا سالانہ بجٹ 30 ارب ڈالر ہے، یعنی بحریہ کے کُل بجٹ کا ایک چوتھائی۔ ملک بھر میں اس تنصیب کے ملازمین کی مجموعی تعداد کوئی ساٹھ ہزار ہے۔

’لاس انجلس ٹائمز‘ اخبار کے معروف کالم نگار ڈائیل مک مینس شام کی صورت حال پر ایک تبصرے میں کہتے ہیں کہ جب صدر اوبامہ اور اُن کے معاونین نے شام کے خلاف فوجی کاروائی کے لئے آواز اُٹھائی تو انہیں اس سے حیرت ہوئی کہ عام پبلک اس کاروائی کے اس قدر خلاف ہے۔ لیکن، مک مینس کہتے ہیں کہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں تھی۔ اور انہوں نے یاد دلایا ہے کہ امریکیوں کو جنگ سے ہمیشہ کد رہی ہے، سنہ 1939 کے رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر تھا کہ بیشتر امریکی نہ صرف نازی جرمنی کے خلاف جنگ کرنے کے خلاف تھے بلکہ انہیں اس بارے میں بھی تذبذُب تھا کہ آیا اُنہیں برطانیہ کوفوجی امداد بھیجنی چاہئے، اور مک مینس کے خیال میں آج کے دور میں امریکی شک و شبہے کی اضافی وجوہات ہیں۔ وُہ یہ کہ مشرق وسطیٰ میں کہیں بھی جنگ ہو اُس کا دلدل بن جانا ایک ناگزیر امر ہے۔

اِس کے ساتھ ساتھ، اُن کے خیال میں امریکی عوام کے اپنے لیڈروں کے ساتھ طرز عمل میں بھی ایک بنیادی فرق آیا ہے، اور خارجہ پالیسی میں صدر کیلئے عوام کی روائتی حمائت میں فرق آیا ہے جس کی ایک وجہ دونوں پارٹیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی دُوری ہے۔ بہت سے قدامت پسند جنہوں نے ری پبلکن صدور کے تحت فوجی کاروائی کی حمائت کی ہے۔

مسٹر اوبامہ کی اس ضرورت کی گھڑی میں ان کا ساتھ دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں اور پچھلے ہفتے کے گیلپ کے رائے عامُہ کے ایک جائزے کے مطابق، وفاقی حکومت سے کسی کام کو ڈھنگ سے پورا کرنے کی جو توقعات عوام کو ہوتی ہیں، وہ کبھی اتنی کم نہ تھیں جتنی اس وقت۔

کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی دنیا سے الگ تھلگ رہنے کے قائل ہوگئے ہیں؟ ایسا رُجحان ایک صدی میں نہیں دیکھا گیا ہے۔ سمندر پار مخمسوں میں پھنسنے کے بارے میں عوام کی بے زاری پر انہوں نے پِو ریسرچ انسٹی چُیوٹ کے ایک جائز ے کی طرف توجہ دلائی ہے، جس کے مطابق، 46 فی صد امریکی اب اس خیال کے حامی ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر امریکہ کو اپنی نبھیڑنی چاہئے اور دوسرے ملک جس طرح اپنا کاروبار چلانا چاہئے۔ اُنہیں اسی طرح چلانے دینا چاہئے۔