امریکی اخبارات سے: نگرانی کے معاملے پر جج کا فیصلہ

فائل

جج نے لکھا ہے کہ اگر اکیسویں صدی سے اٹھارہویں صدی میں جانا ممکن ہوتا، تو جیمز میڈیسن پرسخت شاق گُذرتا کہ رازداری کی اس درجہ خلاف ورزی کی گئی ہے
امیریکن نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے تمام ٹیلیفونوں کے ریکارڈز کی چھان بین کے کلّی اختیارات کے انکشاف کے بعد، پہلی مرتبہ ایک وفاقی عدالت نے،جو یہ فیصلہ صادر کیا ہے کہ اغلب یہی ہے کہ اس قسم کی چھان بین غیر آئینی کے زمرے میں آئے گی۔

اُس پر، ’نیویارک ٹائمز‘ کہتاہے کہ 68 صفحات پر مشتمل اس عدالتی فیصلے میں، جس میں حیرت و استعجاب کا اظہار کیا گیا ہے، واشنگٹن ڈی سی کے ایک ڈسٹرکٹ جج نے کہا ہے کہ سات سال پر محیط اس عرصے کے دوران’پیٹریٹ ایکٹ‘ کے تحت، خفیہ انٹلی جنس عدالت کی منظوری سے جو اعداد و شمار اکٹھا کئے گئے ہیں، وہ تقریباً یقینی طور پر آئین کی اُس چوتھی ترمیم کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں، جس میں غیر معقول تلاشیوں کی ممانعت کی گئی ہے۔

جج نے لکھا ہے کہ اگر اکیسویں صدی سے اٹھارہویں صدی میں جانا ممکن ہوتا، تو جیمز میڈیسن پرسخت شاق گُذرتا کہ رازداری کی اس درجہ خلاف ورزی کی گئی ہے۔

جج لیون نے دہشت گردی کو روکنے کے بارے میں حکومت کی تشویش کا اعتراف کرتے ہوئے اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ حکومت نے کوئی مثال پیش نہیں کی ہے کہ یہ اعداد و شمار جمع کرنے کے نتیجے میں وُہ ایک بھی حملہ روکنے میں کامیاب ہوئی ہو۔

ٹیلیفونوں کے ریکارڈ جمع کرنے کے اس حق کے خلاف دعویٰ دائر کرنے والوں کا موقّف تسلیم کرتے ہوئے جج نے حکومت کے نام یہ ہدائت جاری کی کہ وہ ریکارڈ جمع کرنا بند کرے اور جو اعدادو شمار وُہ جمع کر چُکی ہے، اُسے ضائع کردیا جائے۔

لیکن، اس کے ساتھ ساتھ جج نے اس فیصلے پر عمل در آمد رُکوا دیا ہے، تاکہ حکومت کو اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ علاوہ ازیں، اس فیصلے کا اطلاق عامتہ النّاس پر نہیں بلکہ صرف مدّعی پر ہوگا۔

’نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ باوجودیکہ فیصلے کا اطلاق بُہت محدود ہے، یہ اُن لوگوں کے لئے علامتی فتح کا درجہ رکھتا ہے۔ جو اتنے وسیع پیمانے پر اعدادوشمار جمع کرنے کے خلاف ہیں، اور جیسا کہ جج نے کہا ہے، سات سال تک ان آئینی امور پر رازداری کے پردے میں فیصلے ہوتے رہے ہیں۔ لیکن، اب قانون کی عدالت میں اس پردے کو ہٹالیا گیا ہے۔

اسی موضوع پر، ’شکاگو ٹربیون‘ میں سٹیو چیپ من رقم طراز ہین کہ ٹیلیفون ریکارڈجمع کرنے اور اس کی چھان بین کرنے کے نیشنل سیکیورٹی کونسل کے حق کو واشنگٹن ڈی سی کے ڈسٹرکٹ جج نے جو ایک فیصلے میں امریکی آئین کے منافی قرار دیا ہے، اُس سے یہ اُمّید پیدا ہو گئی ہے کہ دہشت گردی کے اس دور میں بھی ذاتی رازداری کو محفوظ بنانے میں تاخیر نہیں ہوئی ہے۔

لیکن، اس جج نے جو کُچھ کہا ہے، اس سے کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئےاور اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس پر ہونی والی بحث اس حد تک گُھمائی پھر ائی جاتی ہے کہ اس جج نے عام سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے جو فیصلہ صادر کیا ہے وُہ قریب قریب انقلابی لگتا ہے۔

مضمون نگار نے خاص طور پر جج کی اس دلیل کا ذکر کیا ہے کہ ملک کی کسی عدالت نے کسی ایسی ضرورت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے کہ بغیر کسی مخصُوص شک و شُبہے کے ہر امریکی شہری کی روزانہ تلاشی لی جائے۔۔

’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ سعودی عرب کے مفتی اعظم، شیخ عبدالعزیز عبداللہ بن عبداللہ الشیخ کی طرح دنیائے اسلام کے دوسرے دینی قائدین کو بھی مفتی اعظم کی طرح خود کُش بم دہماکوں کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے۔

اخبار کہتا ہے کہ مفتی اعظم پہلے بھی ایسے بیان دے چکے ہیں۔ لیکن، اُن کا تازہ بیان خاص طور پر بُہت سخت تھا جس کی وجہ مشرق وسطیٰ میں مسلمانوں کے مسلمانوں کے خلاف خود کُش بم دہماکوں میں حد سے زیادہ اضافہ ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ شیخ عبدالعزیز کی طرح مزید ممتاز اسلامی لیڈروں پر لازم ہے کہ وُہ زیادہ کثرت سے اور پورے زور کے ساتھ اور بالخصوص اس وقت اس حقیقت کو اُجاگر کریں کہ اسلام امن کا مذہب ہے، پاکستان سے لے کر لبیا تک جو سیاسی واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ اُن کی وجہ سے خود کُش بمباری کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، محض عراق میں رواں سال میں آٹھ ہزار افراد ہلاک کئے جا چُکے ہیں جن میں سے بیشتر کو خوکُش بمباروں نے نشانہ بنایا۔

اخبار کہتا ہے کہ اسلام کے نام پر کئے جانے والے شہریوں کا کُشت و خوں کو روکنے کے لئے بہت کچھ کرنا ہوگا، مثلاً مشرق وسطیٰ میں زیادہ آزادیاں، زیادہ انسانی حقوق اور معاشی ترقی ہونی چاہئے، اس کے ساتھ ساتھ اس خطے میں موجود مغربی فوجوں کو اپنا کردار کم سے کم کرنا ہوگا۔۔۔