افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں خواتین کی تعلیم پر پابندیاں عائد ہیں ۔طالبان کی طرف سے چھٹی جماعت سے آگے لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی کو دو سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایجنڈے میں افغان خواتین اور بچوں کے حقوق کا معاملہ بھی شامل ہے۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے امور سے متعلق ادارے یونیسیف کا کہنا ہے کہ اس پابندی سے 10 لاکھ سے زیادہ لڑکیاں متاثر ہوئی ہیں۔تاہم ادارے کے اندازے کے مطابق طالبان کے قبضے سے قبل 50 لاکھ لڑکیاں اسکول سے باہر تھیں جس کی وجہ سہولیات کی کمی اور دیگر مسائل تھے۔
لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی اور یہ اقدام طالبان کو افغانستان کے جائز حکمران کے طور پر تسلیم کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔ لیکن طالبان اس عالمی ردعمل کو مسترد کرتے ہیں اور اسی نوعیت کے مزید اقدامات کرتے ہوئے انہوں نے خواتین اور لڑکیوں کو نہ صرف اعلیٰ تعلیم بلکہ عوامی سطح پر بیشتر ملازمتوں سےبھی محروم کر دیا ہے۔
طالبان نے لڑکیوں کو ہائی اسکول سے کیوں محروم رکھا؟
طالبان نے چھٹی جماعت کے بعد لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ یہ اسلامی قانون یا شریعت کے مطابق نہیں ہے۔ انہوں نے لڑکوں کے لیے تعلیم پر پابندی عائد نہیں کی ۔ طالبان نے گزشتہ دو برسوں میں ایسے حالات پیدا کرنے میں کوئی پیش رفت نہیں کی جو ان کے بقول لڑکیوں کی کلاسز میں شرکت کے لیے ضروری ہیں ۔
خطے اور علاقائی امور کے ماہر حسن عباس کہتے ہیں کہ لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں طالبان کا نقطہ نظر 19ویں صدی کے ایک مخصوص اسلامی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے اور یہ جزوی طور پر دیہی علاقوں سے لیا گیا ہے جہاں قبائلی روایات کا غلبہ ہے۔
طالبان کے بارے میں حسن عباس کہتے ہیں کہ ’’ جن لوگوں نے طالبان تحریک کو آگے بڑھایا انہوں نے ایسے خیالات کا انتخاب کیا جو محدود،انتہائی قدامت پسندانہ اور قبائلی ہیں۔‘‘
حسن عباس نے کہا کہ طالبان قیادت کا خیال ہے کہ خواتین کو کسی بھی نوعیت کے سماجی یا عوامی امور میں حصہ نہیں لینا چاہیے اور خاص طور پر انہیں تعلیم سے دور رکھنا چاہیے۔طالبان نے 1990 کی دہائی کے اواخر میں بھی، جب افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تھا، لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگائی تھی۔
SEE ALSO: طالبان نے مبینہ طور پر 100طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے لیے دبئی جانے سے روک دیامسلم اکثریتی ممالک اس پابندی کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
افغانستان سے باہر کے علماء کے درمیان اس بات پر اتفاق ہے کہ اسلام خواتین اور مردوں کی تعلیم پر یکساں طور پر زور دیتا ہے۔ حسن عباس کہتے ہیں کہ طالبان کے پاس متضاد دعویٰ کرنے کی کوئی بنیاد یا ثبوت نہیں ہے۔ لیکن اسلامی تعاون کی تنظیم میں شامل ممالک اورمختلف گروپوں کی درخواستیں طالبان کے اس مؤقف کو تبدیل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
طالبان کے ایک سابق فرنٹ لائن کمانڈر سید اکبر آغا نے کہا کہ باغیوں نے اگست 2021 میں اسی روز اسلامی نظام کے نفاذ پر زور دیا تھا جب وہ کابل میں داخل ہوئے تھے۔
آغا نے کہا کہ ’’ انہوں نے افغان افراد اور بیرونی دنیا کے سامنے یہ مؤقف رکھا تھا کہ ملک میں اسلامی نظام رائج ہو گا۔دنیا میں اس وقت کوئی دوسرا اسلامی نظام نہیں ہے۔ عالمی برادری کی جانب سے کوششیں کی جاری ہیں کہ مسلم ممالک میں جمہوریت کا نفاذ ہو اورانہیں اسلامی نظام سے دور رکھا جائے۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
خواتین پراس پابندی کےاثرات؟
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوئٹرس کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندہ اور افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کی سربراہ روزا اوتن بائیفا نے کہا ہے کہ تعلیم پر پابندی کے واضح اثرات میں سے ایک صحت کے شعبے میں پیشہ ور افراد کی تربیت کا فقدان ہے۔
طالبان کی جانب سے گزشتہ دسمبر میں خواتین کے لیے اعلیٰ تعلیم پر پابندی کے حکم کے بعد میڈیکل شعبے میں بھی طالبات کی تعلیم روک دی گئی تھی۔ افغان خواتین اسپتالوں اور کلینکوں میں کام کرتی ہیں ۔صحت کی دیکھ بھال ان چند شعبوں میں سے ایک ہے جو ان کے لیے کھلے ہیں ۔ لیکن اب اہل اور با صلاحیت افراد کی مزید آمد ختم ہو جائے گی۔ افغان خواتین مرد ڈاکٹروں سے رائے نہیں لے سکتیں۔ اس لیے اگر خواتین ہی ان کی بنیادی دیکھ بھال کرنے والی ہیں تو پھر بچے بھی طبی امداد سے محروم ہو جائیں گے۔
اوتن بائیفا نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو ایک ای میل میں بتایا کہ ’’ مستقبل کے حوالے سے اور تبدیل نہ ہونے والے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خواتین ڈاکٹرز، دائیاں ، گائنا کالوجسٹس ، یا نرسیں کہاں سے آئیں گی ۔؟‘‘
وہ مزید لکھتی ہیں کہ ’’افغان خواتین صحت کی بنیادی خدمات کیسے حاصل کر پائیں گی اگر ان کے علاج کے لیے پیشہ ور خواتین نہ ہوں؟‘‘
افغانستان کی وسیع ترآبادی پر مرتب ہونے والے اثرات
ہائی اسکول کی تعلیم پر پابندی صرف لڑکیوں کے حقوق سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ تمام افغان لوگوں کے لیے ایک بحرانی کیفیت ہے۔
ہزاروں اساتذہ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ امدادی عملہ بھی بے روزگار ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے شعبے سے مالی طور پر فائدہ اٹھانے والے نجی ادارے اور کاروباربھی متاثر ہوئے ہیں۔ افغانستان کی معیشت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور لوگوں کی آمدن کم ہوتی جا رہی ہے۔
یونیسیف کا کہنا ہے کہ خواتین کو ملازمتوں سے باہر رکھنے کے نتیجے میں ملک کی جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچتا ہے۔
کیا طالبان اپنی سوچ بدلیں گے؟
طالبان اسلامی تعلیم کو بنیادی خواندگی اور شماریات پر ترجیح دے رہے ہیں اور مدارس یا دینی مدارس کی طرف توجہ دے رہے ہیں جس کے نتیجے میں بچوں کی ایک ایسی نسل کے لیے راہ ہموار ہو رہی ہے جن کے پاس جدید یا سیکولر تعلیم نہیں ہے جس کی مدد سے وہ اپنے یا ملک کے معاشی مستقبل کو بہتر کر سکتے ہیں ۔عام آبادی کو اس صورت حال سے متعدد نتائج کا سامنا ہے جس میں صحت عامہ اور بچوں کے تحفظ جیسے امور شامل ہیں ۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 15 سے 19 سال عمر کی افغان لڑکیوں میں بچے پیدا کرنے کی شرح زیادہ ہے اور ان کے پاس ثانوی یا اعلیٰ تعلیم نہیں ہے۔ ایک عورت کی تعلیم یہ تعین کر سکتی ہے کہ آیا اس کے بچوں کو بنیادی حفاظتی ٹیکے لگ چکے ہیں اوریہ کہ اس کی بیٹیاں 18 سال کی عمر تک شادی کی اہل ہو جائیں گی۔ امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ خاندانوں کو درپیش مشکلات کے تناظر میں سکول نہ جانے کی صورت میں لڑکیوں کے لیے چائلڈ لیبر اور کم عمری کی شادی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔
طالبان نے شریعت کے بارے میں اپنے نکتہ نظر کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عشروں تک جہاد کیا ہے۔اب وہ آسانی سے اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹ رہے ۔ پابندیاں، منجمد اثاثے، سرکاری سطح پر شناخت کا فقدان اور وسیع پیمانے پر مذمت جیسے عوامل کا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
طالبان کے ساتھ تعلقات رکھنے والے ممالک اس حوالے سے اپنا اثرورسوخ استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کی ترجیحات مختلف ہیں جن کے نتیجے میں لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں کسی اتفاق رائے کے امکانات کو کم کیا جا سکے۔ پاکستان کو عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کے دوبارہ آغاز پر تشویش ہے۔ ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کو آبی وسائل کے بارے میں شکایات ہیں جب کہ چین سرمایہ کاری اور معدنیات کے حصول کے لیے مواقع پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
افغانستان کے اندر سے دباؤ آنے کا زیادہ امکان ہے
طالبان کا موجودہ دور کئی دہائیوں پہلے کے دور سے مختلف ہے۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہدسمیت سینئر رہنما اندرون اور بیرون ملک اہم پیغامات کے لیے سوشل میڈیا پر انحصار کرتے ہیں۔
وہ منشیات کے خاتمے اور اسلامک سٹیٹ یا داعش جیسے مسلح گروہوں کے خلاف کارروائیوں میں اپنی کامیابی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ لیکن سیکیورٹی کو بہتر بنانا اور پوست کی فصلوں کا صفایا لوگوں کو ایک حد تک ہی مطمئن کر سکتا ہے۔
SEE ALSO: طالبان نے مبینہ طور پر 100طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے لیے دبئی جانے سے روک دیاجہاں افغان عوام لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں فکر مند ہیں وہیں انہیں فوری طور پر روزگار ، دسترخوان پر کھانے، سر پر چھت اور خشک سالی اور سخت سردیوں سے بچاؤ جیسے متعدد مسائل کا سامنا بھی ہے۔
افغانستان کے عوام میں یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ طالبان کو کسی حد تک بین الاقوامی سطح پر قبولیت حاصل ہو تاکہ معیشت ترقی کر سکے ۔چاہے اسے مکمل طور پر تسلیم نہ بھی کیا جائے۔
تجزیہ کار حسن عباس کہتے ہیں کہ 90 کی دہائی میں طالبان دور کے مقابلے میں آج رائے عامہ زیادہ متعلقہ اور بااثر ہے۔ ‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ’’ افغا ن عوام کی جانب سے اندرونی دباؤ بالآخر فرق پیدا کر سکے گا۔‘‘
لیکن لڑکیوں پر اس پابندی کے نتائج سے افغان مردوں پر اثر مرتب ہونے اورنتیجے میں بدامنی کی فضا پیدا ہونے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ ابھی یہ پابندی صرف لڑکیوں کو متاثر کررہی ہے اور یہ زیادہ تر خواتین ہیں جنہوں نےان پابندیوں کے خلاف احتجاج کیا ہے۔
طالبان کے سابق فرنٹ لائن کمانڈر سید اکبر آغا نے کہا ہے کہ افغان عوم اس پابندی کی حمایت اس صورت میں کریں گے اگر اس کا مقصد حجاب یعنی اسلامی ہیڈ سکارف کا لازمی استعمال ہو اور صنفی بنیادوں پر اجتماعات کو ختم کردیا جائے ۔ لیکن اگر یہ صرف لڑکیوں کی تعلیم کو مکمل طور پر ختم کرنے سے متعلق ہو تو پھر وہ ایسا نہیں کریں گے ۔
انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس صورت حال میں صرف قوم ہی رہنمائی کر سکتی ہے۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔)