رسائی کے لنکس

کبھی کوئی کرسچئین دیکھا ہی نہیں تھا!


ملک کے سب سے بڑے تجارتی شہر کی رہائشی عمارتوں میں گھر بیٹھے مار دیئے گئے بے گناہ پاکستانیوں کے بے جان جسم ایدھی اور چھیپا کی سفید چادروں میں لپٹے پڑے ہیں اور میں سوچ رہی ہوں کہ عاصم بیگ کے خوابوں اور اس کے ملک کی حقیقتوں کے درمیان یہ جو بلیک ہول بڑا ہو رہا ہے، اسے بھرنے کا طریقہ کون ایجاد کرے گا ؟

اس وقت جب پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی جمہوریت کے پانچ سال مکمل کرنے والی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تمام تر چوکسی کے باوجود بڑے ہی پر اسرار انداز میں ایک سے دوسری جگہ منتقل ہو کر پھٹ جانے و الے بارودی مواد سے ادھڑی ہوئی رہائشی عمارتوں پر کھڑا جانی اور مالی نقصان کا درست تخمینہ لگانے کی کوشش کر رہا ہے۔

میں آپ کو عاصم بیگ سے ملوانا چاہتی ہوں ۔ وہ پاکستان کی اس نوجوان آبادی کا حصہ ہے، جن میں سے اکثر کو شائد اپنے سے مختلف زبان بولنے والوں، اپنے سے مختلف مذہب ، مسلک یا رنگت کے انسانوں کو قریب سے دیکھنے اور ان سے ملنے جلنے کا موقعہ کبھی نہ مل سکے ۔ میری یہ گفتگو بات چیت کے اسی سلسلے کا حصہ ہے جس نے مجھے پاکستان کے ارتقائی سفر کی ایک طالب علم کے طور پر اپنے ملک کے مختلف علاقوں اور پس منظر سے تعلق رکھنے والے چند نوجوانوں کے ذہن میں جھانکنے کا موقعہ فراہم کیا۔

17سالہ عاصم بیگ گلگت بلتستان کے ضلع گزر پنہیال ، گیچ سے واشنگٹن آیا تھا ۔ میری اس سے ملاقات ہوئی ، تو وہ آغاخان ہائیر سیکنڈری سکول گاگوچ کا طالب علم تھا۔

اس کی باتوں میں اچھے مستقبل کی امید تھی اور چہرے پر کچھ کر گزرنے کا جوش ۔۔ کسی اچانک ملنے والی خوشی کی زیادتی تھی یا کچے پکے اونچے نیچے ارادوں کا افراط زر ۔۔۔میں کچھ ٹھیک سے اندازہ نہیں لگا سکی ۔ مگر اتنا یاد ہے کہ اس کی سیدھی سادی باتوں میں کچھ بہت ہی خاص تھا۔

وہ کہہ رہا تھا۔

سپنا تھایہ ایک ۔ اب سچائی ہے ۔ میں ہمیشہ سوچتا تھا ۔ ٹی وی پر دیکھتا تھا ۔ امریکہ کی بلڈنگز اور سپورٹس کارز کو ۔ امریکی شہروں اور وائٹ ہاؤس کو ۔۔ وہاں کی خبریں شوق سے دیکھتا تھا ۔ خواب تھا کہ امریکہ جاؤں۔ کالج جاؤں۔۔ابھی کالج تو نہیں جارہا، لیکن ایک سال کے لئے امریکہ آیا ہوں ۔

تو پھر کیسا رہا یہ تجربہ؟
۔۔۔میں نے اس دبلے پتلے اونچے لمبے گلگتی نوجوان سے پوچھا تھا۔

'بہتہی اچھا ۔۔۔میں تو کہوں گا کہ میری زندگی کا سب سے اچھا تجربہ ۔ مختلف ہے۔ ایک دو چیزیں شائد ایک جیسی ہوں مگر باقی سب کچھ مختلف ہے۔ لوگ مختلف ہیں۔ جیسے ہم پاکستان میں اپنے گھر میں رہتے ہیں، یہاں لوگوں کے رہن سہن کا انداز بہت مختلف ہے۔ مذہب کا فرق ہے۔ میری میزبان فیملی کیتھولک کرسچن ہے۔۔ سوچیں ، آپ مسلمان پیدا ہوئے ہوں اور اچانک آپ سے کہا جائے کہ 15 سال کی عمر میں جا کر ایک کرسچئن فیملی کے ساتھ رہو۔۔ یہ تو بہت ڈفرنٹ ہے ناں !۔۔۔۔۔ہماری ویلیوز اتنی مختلف ہیں ۔ اچانک ایک کرسچئین خاندان کے ساتھ ایڈجسٹٕ کرنا ، ان کے ساتھ مل جل کر رہنا اتنا آسان نہیں ہے ۔ مجھے جو پہلا کرسچئین ملا، وہ یہاں واشنگٹن ڈی سی میں ہی ملا ۔ باقی میں نے کبھی کوئی کرسچئین دیکھا ہی نہیں تھا۔ دیکھیں،یہاں لوگوں کے گھر ہی الگ طریقے کے ہیں، وہ کھانا ہی کچھ اور کھاتے ہیں، وہ رہتے ہی کسی اور طریقے سے ہیں۔ زبان ہی اتنی فرق ہے۔ ویسے تو میں جس علاقے سے آیا ہوں وہاں کی اپنی زبان ہے۔۔ شینا ۔ ہماری نیشنل لینگویج کو تو آپ رہنے ہی دیں۔ انگلش میری تیسری زبان ہے ۔ تو ظاہر ہے ، مشکل ہے ۔'

'تو اس مشکل پر کیسے قابو پایا؟'

'بہت مشکل سے ۔۔ہمارے ہاں سکول میں آپ انگریزی میں لکھنا سیکھتے ہیں، بولنا نہیں ۔۔۔ انگلش میں آپ کو مضمون لکھنا سکھایا جاتا ہے، گرائمر سکھائی جاتی ہے۔ میرے ایک ٹیچر نے مجھے اتنی انگریزی بولنی سکھائی ،جتنی میں آج بولنے کے قابل ہوں ۔ مگر جن سٹوڈنٹس کی فنڈامینٹل انگلش کمزور ہے ، وہ آگے کیسے پڑھیں گے۔'

میں نے اس سے پوچھا کہ خود اس نے امریکہ آکر کیا کچھ سیکھا ہے؟

اس نے کہا ۔

'
بہت سی اچھی باتیں ۔ میں تو کہوں گا میں نے کوئی بری بات سیکھی ہی نہیں۔۔ یہاں آپ اپنے اور دوسرے کے درمیان فرق کا احترام کرنا سیکھتے ہیں ۔ میں مانتا ہوں ، ہم میں فرق ہے ۔ لیکن وہ تو گلگت سے راولپنڈی جائیں تو وہاں بھی ہے ۔ رہن سہن کا انداز الگ ہے۔ امریکہ میں جب لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ آپ پاکستان سے ہیں تو وہ آپ سے بات کرنے کے لئے بے چین ہو جاتے ہیں ۔ آپ سے آکر خود پوچھتے ہیں کہ پاکستان کے لوگ کیسے ہیں؟ کس طرح رہتے ہیں؟ میں نے اپنے میزبان خاندان کو اپنے مذہب کے بارے میں بتایا کہ ہم نماز کیسے پڑھتے ہیں، ہماری مذہبی اقدار اور رسمیں کیا ہیں۔۔زبان کیسی ہے۔۔وہ خود کہتے ہیں کہ جس مسلمان سٹوڈنٹ کی ہم نے پہلے میزبانی کی تھی وہ تمہاری طرح مسلمان نہیں تھا۔ تم بالکل الگ طرح کے ہو ۔‘‘

’’ کیا تم نے بھی اپنے میزبانوں کو کیا سکھایا ؟‘‘
’’
بہت کچھ ۔۔میں نے اپنے میزبان سکول کو بہت کچھ سکھایاہے ۔ یہاں ایک انٹرنیشنل ایجوکیشن ویک ہوتا ہے ، وہاں میں نے بھی ایک پریزینٹیشن دی تھی ۔ میں نے وہاں اپنے دوستوں کو بتایا تھا کہ ہم پاکستان میں کیسے رہتے ہیں۔ میں پاکستان سے شلوار قمیض لے کر آیا تھا، وہ میں نےانہیں پہن کر دکھائی ۔ انہیں وائٹ بورڈ پر اپنا اردو رسم الخط بھی لکھ کر دکھایا ۔ وہ انگلش بائیں طرف سے لکھتے ہیں۔ ہم اردو دائیں طرف سے ۔ میں نے انہیں بتایا کہ ہم کون سے کھانے کھاتے ہیں۔۔ ابھی کچھ دن بعد میں انہیں پاکستانی بریانی بنا کر کھلاؤں گا تاکہ انہیں معلوم ہو کہ ہمارے پاکستانی کھانے کیسے ہوتے ہیں۔‘‘

’’پاکستان واپس جاکر کیا کرو گے ؟‘‘
’’
میں جو کچھ بھی کروں گا، وہ پاکستان کے لئے کرنے والا ہوں ۔ جو ایک سال میں نے یہاں گزارا ہے، وہ اپنے ملک کے لئے گزارا ہے ۔ یہاں میں نے لیڈرشپ skillsسیکھی ہیں کہ کس طرح آپ ایک لیڈر بنتے ہیں۔ کیسے اپنی ملک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ میں اپنے میزبان شہر اور سکول میں پاکستان کا سفیر تھا۔ آپ کو پتہ ہے ، آسان نہیں ہوتا کہ آپ اپنے ملک کی نمائندگی کریں۔ آپ کو ایک ایک بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ جو آپ بول رہے ہیں، یہ لوگ اسے سچ مان رہے ہیں ، جو آپ انہیں دکھا رہے ہیں، وہ مان لیتے ہیں کہ سب پاکستانی ایسے ہی ہوتے ہونگے ۔ ابھی ان کے خیال میں سب پاکستانی مجھ جیسے ہیں۔ انہوں نے صرف مجھے دیکھا ہے پاکستان کے نام پر ۔ باقی وہ کچھ نہیں جانتے۔‘‘

’’اوہو ۔۔مگر کرنا کیا چاہتے ہو؟ بننا کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’
میں نے بچپن سے ایک خواب دیکھا تھا ۔۔۔میں پائلٹ بننا چاہتا تھا ۔ یہاں آکر میں نے اپنے خواب کو تھوڑا modify کر لیا ہے۔ اب میں ناسا میں جانا چاہتا ہوں۔ وہ کیا کہتے ہیں، آسٹرونامیکل انجینئیر، وہ بننا چاہتا ہوں ۔‘‘

عاصم بیگ پاکستان واپس جاچکا ہے۔۔ وہ گلگت واپس پہنچ کر کیا بننے کی کوشش کر رہا ہے ۔۔میں کچھ یقین سے نہیں کہہ سکتی ۔ اس نے میری رابطہ ای میل کا کوئی جواب نہیں دیا ۔۔شائد انٹرنیٹ کا مسئلہ ہے یا پھر لوڈ شیڈنگ کی زیادتی ۔۔یا پھر دونوں۔

میری ٹی وی سکرین کے نیوز بلیٹن پر چوبیس گھنٹے سے ، ملک کے سب سے بڑے تجارتی شہر کی رہائشی عمارتوں میں ، گھر بیٹھے مار دیئے گئے بے گناہ پاکستانیوں کے بے جان جسم ، ایدھی اور چھیپا کی سفید چادروں میں لپٹے اب تک دیکھے جا سکتے ہیں۔

پاکستان سوگ میں ہے ۔ غصے میں ہے ۔ جل رہاہے ۔

پانچ سال کی اولین کامیاب جمہوریت ، ملک کے کسی اندھیرے کونے میں دم سادھے بیٹھی ہے ۔ خاموش ۔۔۔۔ اور طوفانوں کے گزر جانے کی منتظر۔۔۔

میرے ٹوئیٹر اور فیس بک کی نیوز فیڈ پر لوگ تجزیے کر رہے ہیں ۔۔سوال پوچھ رہے ہیں ۔۔جواب دے رہے ہیں ۔۔

میں سوچ رہی ہوں ،کہ عاصم بیگ کے خوابوں اور اس کے ملک کی حقیقتوں کے درمیان یہ جو بلیک ہول بڑا ہو تا جا رہا ہے ، اسے بھرنے کا طریقہ کون ، کب ایجاد کرے گا؟

آخر عاصم اور اس جیسے پاکستانی اپنے خوابوں اور ارادوں کو کتنا modify کرسکتے ہیں ؟
XS
SM
MD
LG