ماہرہ بشیر کہتی ہیں کہ اگر انہیں مدد مل جائے تو ان کے خیال میں وہ ڈھائی سو سے پانچ سو طالبات کو ایک ساتھ تربیت دے سکیں گے۔ ان کے بقول تربیت سے خواتین کو بااختیار بنایا جا سکے گا جو کمیونٹی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں رہنے والے افغان پناہ گزینوں پر کیا گزر رہی ہے؟ جانیے نذرالاسلام کی اس رپورٹ میں۔
کراچی میں گرفتار ہونے والے افغان مہاجرین کی قانونی مدد کرنے والی وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن میزہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ پولیس افغانوں کے ساتھ پشتونوں کو بھی گرفتار کر رہی ہے۔ اور اگر حکومت نے افغانوں کے رجسٹریشن کارڈ کی مدت میں توسع نہیں کرنی تو پالیسی واضع کرے۔
پاکستان میں ان دنوں افغان مہاجرین کی پکڑدھکڑ جاری ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ایسے افراد کو بھی ملک بدر کیا جا رہا ہے جن کے پاس دستاویزات موجود ہیں۔ یو این ایچ سی آر نے ان کارروائیوں پر تشویش ظاہر کی ہے۔ معاملہ ہے کیا؟ جانتے ہیں پشاور سے شمیم شاہد اور کراچی سے سدرہ ڈار کی رپورٹس میں، خالد حمید کے ساتھ۔
پاکستانی حکومت کا موقف تھا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف کاروائیوں اور دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان ہی حالات کے پیش نظر حکومت پاکستان نے ملک میں موجود غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے والوں اور جرائم میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاون کا آغاز کیا۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی کے سبب کراچی میں ان دنوں افغان شہریوں کی گرفتاریاں جاری ہیں۔ حکومتِ پاکستان کا کہنا ہے کہ گرفتاریاں غیر قانونی طریقے سے پاکستان آنے والوں کی ہو رہی ہیں۔ تاہم زیرِ حراست بہت سے افغان شہری ایسے بھی ہیں جن کے پاس قانونی دستاویز موجود ہے۔
پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کے عبوری وزیرِ اعظم ملا حسن اخوند کو خط ارسال کیا ہے جس میں دونوں ممالک کو در پیش سیکیورٹی اور معاشی مسائل کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی ڈرگ ایجنسی اتوار کو جاری کردہ رپورٹ میں کہنا ہے کہ افغانستان میتھامفیٹائن کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مارکیٹ بنتا جا رہا ہے۔
افغانستان سے انخلا کے وقت امریکہ اسلحہ چھوڑ کر گیا تھا یا نہیں؟ آج کل یہ سوال ہر طرف زیرِ گردش ہے۔ اس بارے میں پاکستان اور امریکہ کا کیا مؤقف ہے؟ جانتے ہیں عاصم علی رانا سے۔
مبصرین کے مطابق افغانستان میں داعش سمیت کوئی بھی تنظیم، چاہے شمالی اتحاد ہی کیوں نہ ہو، اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ بڑی جنگ لڑ سکیں۔ ان کے بقول یہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی موجودگی پاکستان کے لیے مستقل خطرہ ہے۔
افغانستان کی فوج میں خدمات انجام دینے والے کئی سابق پائلٹ پاکستان میں ہیں اور وہ امریکہ منتقلی کی درخواست پر پیش رفت کے منتظر ہیں۔ ان پائلٹوں میں اکثر کے ویزوں کی مدت ختم ہو چکی ہے اور ان کے لیے پاکستان میں روزگار کی تلاش بھی ایک مشکل مرحلہ ہے۔۔
اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں داعش کی بڑھتی ہوئی صلاحیت، طالبان کی جبری پالیسی، ملک کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال اور افغان سرزمین پر فعال 20 مختلف دہشت گرد گروہ خطے اور دنیا کے لیے خطرہ ہیں۔
مزید لوڈ کریں