رسائی کے لنکس

جموں و کشمیر کی سب سے قدیم سیاسی جماعت مسلم کانفرنس پر پابندی عائد


India Kashmir Fighting
India Kashmir Fighting

بھارت کی وزارتِ داخلہ نے جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے دو دھڑوں کو کالعدم تنظیمیں قرار دے کر پانچ پانچ سال کی پابندی عائد کر دی ہے۔

جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کو کالعدم تنظیم قرار دینے سے ایک دن قبل بھارتی وزارتِ داخلہ نے جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر پر عائد پابندی میں مزید پانچ سال کی توسیع کی تھی۔

بھارت کے وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے جموں و کشمیر مسلم کانفرنس پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ حکومت دہشت گرد نیٹ ورکس کے خلاف اقدامات کر رہی ہے اور مسلم کانفرنس جموں و کشمیر (سمجھی دھڑے) اور مسلم کانفرنس جموں و کشمیر (بٹ دھڑے) کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ تنظیمیں ملک کی خود مختاری اور سالمیت کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث رہی ہیں۔

بھارتی وزیرِ داخلہ نے مزید کہا کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پر عزم ہے اور جو کوئی بھی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے اُسے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔

اس سلسلے میں بھارت کی وزارتِ داخلہ نے جو اعلامیہ جاری کیا ہے اُس میں جموں و کشمیر مسلم کانفرنس پر بھارت مخالف اور پاکستان کے حق میں پروپیگنڈا چلانے اور جموں و کشمیر کے عوام کو آئینِ ہند کے تحت ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے لیے اکسانے کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں۔

تنظیم کے دونوں دھڑوں پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ اس کے ارکان جموں و کشمیر میں دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں اور دہشت گردوں کو نقل و حمل جاری رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔

سرکاری اعلامیے کے مطابق جموں کشمیر مسلم کانفرنس (سمجھی) کے رہنماؤں اور ارکان نے ریاست میں غیر قانونی سرگرمیاں جن میں دہشت گردای کی کارروائیاں اور سیکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کرنا بھی شامل ہیں، جاری رکھنے کے لیے پاکستان سمیت بیرونی ممالک رقومات حاصل کیں۔وہ جموں و کشمیر کو بھارت سے الگ کرنے کے اپنے مقصد کے تحت لوگوں میں مسلسل بد گمانیاں پیدا کرتی رہی ہے۔

اسی طرح کے الزامات جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے دوسرے دھڑے پر بھی لگائے گئے ہیں۔ ان دونوں دھڑوں کو غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق قانون ’یو اے پی اے‘ کے سیکشن تھری کے تحت حکومت کو حاصل اختیارات کو بروئے کار لاکر غیر قانونی تنظیمیں قرار دے دیا گیا ہے اور ان پر پانچ پانچ سال کے لیے پابندی عائد کی گئی ہے۔

مسلم کانفرنس کشمیر کی پرانی سیاسی تنظیم

جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کو ریاست کی سب سے پرانی سیاسی تنظیم قرار دیا جاتا ہے۔

یہ تنظیم اکتوبر 1932 میں سرینگر میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے نام سے قائم کی گئی تھی۔ اس کا بنیادی مقصد مطلق العنان ڈوگرہ مہاراجا ہری سنگھ کی حکومت پر ریاست کے مسلمانوں کو حقوق کو بحال کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا تھا۔

تاہم کشمیری رہنما شیخ محمد عبد اللہ نے 39-1938 میں جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کو آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی قیادت بالخصوص پنڈت جواہر لال نہرو کی سیاست سے متاثر ہو کر بعض ناقدین کے مطابق ان کی ایما پر سیکیولر پیرائے میں ڈالنے کے لیے اس کا نام بدل کر ’جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس‘ رکھ دیا تھا۔

جموں و کشمیر کے ایک اور مقبول سیاسی رہنما چوہدری غلام عباس نے مسلم کانفرنس کا احیا کیا اور 1947میں ریاست کی تقسیم کے بعد یہ جماعت پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیرمیں کئی مرتبہ برسرِ اقتدار رہی۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 1989میں مسلح تحریکِ مزاحمت کا آغاز ہوا تو اس کے سیاسی منظر نامے پر متحرک نظر آنے والے فارسی زبان کے ایک سابق استاد پروفیسر عبد الغنی بٹ نے مسلم کانفرنس کو دوبارہ زندہ کیا۔

پروفیسر عبد الغنی بٹ کو چند سال قبل گورنر جگموہن ملہوترہ کی انتظامیہ نے ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں سرکاری نوکری سے برطرف کیا تھا۔

بعد ازاں جموں و کشمیر مسلم کانفرنس استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد کُل جماعتی حریت کانفرنس کی ایک اہم اکائی بنی۔

اس سے پہلے پروفیسر عبد الغنی بٹ اور ان کے قریبی ساتھی غلام نبی سمجھی کے درمیان اختلافات نے شدت اختیار کی اور بالآخر جموں و کشمیر مسلم کانفرنس دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔

جماعتِ اسلامی پر عائد پابندی میں توسیع کیوں؟

جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے دونوں دھڑوں کو کالعدم قرار دینے سے ایک دن پہلے بھارتی وزارتِ داخلہ نے جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر پر عائد پابندی میں مزید پانچ سال کی توسیع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے کہا تھا کہ جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر پر پابندی میں توسیع وزیرِ اعظم نریندر مودی کے دہشت گردی اور علیحدگی کے حوالے سے عدم رواداری کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کی ایک کڑی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھاکہ جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر پر پانچ سال پہلے پابندی عائد کرنے کے باوجود یہ تنظیم ملک (بھارت) کی سیکیورٹی، سالمیت اور خود مختاری کے خلاف سرگرمیاں جاری رکھنے کی مرتکب پائی گئی ہے۔

فروری 2019 میں جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کو کالعدم تنظیم قرار دیتے ہوئے وزارتِ داخلہ نے کہا تھا کہ اس پر غیر قانونی سرگرمیوں سے متعلق قانون کے تحت پابندی عائد کرنے کا فیصلہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کی صدارت میں وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس میں کیا گیا جس کے بعد وزارت داخلہ کی طرف سے ایک نوٹیفیکیشن جاری کردیا گیا ہے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے ایک حصے میں کچھ عرصہ قبل سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق نریندر مودی حکومت استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد کُل جماعتی حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں پر پابندی لگانے کے امکانات کا بھی جائزہ لے رہی ہے۔ ان میں سے ایک دھڑے کی قیادت سرکردہ مذہبی اور سیاسی لیڈر میر واعظ محمد عمر فاروق کر رہے ہیں جب کہ ستمبر 2021 میں سید علی شاہ گیلانی کے انتقال کے بعد محبوس علیحدگی پسند رہنما اور جموں و کشمیر مسلم لیگ کے سربراہ مسرت عالم بٹ کو کُل جماعتی حریت کانفرنس کے دوسرے دھڑے کا چئرمین مقرر کیا گیا تھا۔

بھارت کی حکومت کے فیصلوں پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے تجزیہ کار ڈاکٹر ارون کمار نے کہا کہ ظاہر ہے بھارتی حکومت تمام لوگوں تک یہ پیغام پہنچانا چاہتی ہے کہ اس کے لیے ہر وہ سرگرمی ناقابلِ برداشت اور ناقابلِ قبول ہے جسے وہ قومی مفادات کے منافی سمجھتی ہے۔

ان کے بقول وزیرِ داخلہ امیت شاہ کہہ چکے ہیں کہ جو بھی شخص یا تنظیم ملک کی سیکیورٹی کے لیے خطرہ پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے اُسے سخت اقدامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ نریندر مودی حکومت جموں وکشمیر میں علیحدگی پسندی کی کسی طرح کی بھی سرگرمی کو جاری رکھنے کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ اس پالیسی کا ایک نمایاں جز ہے اور اس بارے میں وہ ہمیشہ صاف گوئی سے کام لیتی ہے۔

تاہم سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی کا یہ استدال رہا ہے کہ جمہوریت خیالات کی جنگ کا نام ہے اور بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ مختلف سیاسی نظریات کو دبانے کے لیے من مانے طریقے اپنانے اور زور زبردستی کے اقدامات اٹھانے کے بجائے جموں و کشمیر کے سیاسی مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کی کوشش کرے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG