رسائی کے لنکس

کالعدم تنظیم سے تعلق کے شبہے میں پاکستانی فوج کا اعلیٰ افسر گرفتار


فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس
فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس

جنرل عباس کے بقول کسی ایک فوجی اہلکار کا اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہونا پاکستانی فوج کے لیے باعث پریشانی نہیں۔ ”جیسے معاشرہ ہوتا ہے فوج اس کا حصہ ہوتی ہے، جو اثرات معاشرے پر پڑرہے ہوتے ہیں جو مزاج معاشرے کا بنتا ہے اس کا اثر فوج پر بھی پڑتا ہے۔ لیکن ہمیں اس کا ادراک ہے اور اس صورت حال کو سامنے رکھ کر فوج اپنی پالیسی پر عمل درآمد کرتی ہے۔“

پاکستان کی فوج کے ایک اعلیٰ افسر کو ایک کالعدم اسلامی تنظیم سے تعلق کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئےبتایا کہ زیر حراست فوجی افسر کا نام بریگیڈیئر علی خان ہے اور وہ راولپنڈی میں فوج کے ہیڈ کوارٹرز جی ایچ کیو میں تعینات تھا۔

اُنھوں نے کالعدم تنظیم کا نام حزب التحریر بتایا اور کہا کہ فوج کے کسی بھی افسر کو نظم وضبط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسی کسی تنظیم کے ساتھ روابط اور تعلقات بڑھانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ’’اگر الزامات ثابت ہوئے تو اُس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی کیوں کہ فوج کے لیے نظم و ضبط کی کسی بھی طرح کی خلاف ورزی ناقابل برداشت ہے۔‘‘

زیر حراست بریگیڈیئر خان جی ایچ کیو میں فوج کے قواعد وضوابط واضع کرنے والے شعبے کا انچارج تھا۔

ترجمان نے اس تاثر اور تشویش کو رد کیا کہ پاکستانی فوج میں انتہا پسند تنظیموں کا اثر و رسوخ پھیل رہا ہے۔ ”یہ اکا دکا واقعات ہیں لیکن چونکہ (فوج کا جاسوسی کا) نظام پوری طرح فعال ہے اور جیسے ہی اس (بریگیڈیئر خان) کے متعلق اشارے ملے اس کو گرفت میں لیا گیا اور تفتیش ہوئی اور جس وقت مناسب وقت تھا اس پہ کارروائی کی گئی۔ “

جنرل عباس نے کہا کہ اس گرفتاری کا ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف خفیہ امریکی آپریشن کے بعد پاکستان میں کی جانے والی تفتیش اور گرفتاریوں کے ساتھ براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ ”بریگیڈیئر علی خان کا تعلق کالعدم تنظیم حزب التحریر سے ہے، یہ ایک بالکل دوسری تنظیم ہے اس کے براہ راست طالبان سے یا القاعدہ سے کوئی روابط نہیں ہیں۔“

اُن کا کہنا تھا کہ بن لادن آپریشن کے بعد جو لوگ حراست میں لیے گئے تھے وہ اب بھی زیر تفتیش ہیں لیکن ان میں پاکستانی فوج کا کوئی افسر شامل نہیں۔

بریگیڈیئر علی خان
بریگیڈیئر علی خان

جنرل عباس کے بقول کسی ایک فوجی اہلکار کا اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہونا پاکستانی فوج کے لیے باعث پریشانی نہیں۔ ”جیسے معاشرہ ہوتا ہے فوج اس کا حصہ ہوتی ہے، جو اثرات معاشرے پر پڑرہے ہوتے ہیں جو مزاج معاشرے کا بنتا ہے اس کا اثر فوج پر بھی پڑتا ہے۔ لیکن ہمیں اس کا ادراک ہے اور اس صورت حال کو سامنے رکھ کر فوج اپنی پالیسی پر عمل درآمد کرتی ہے۔“

جنرل عباس کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیم کے اُن ارکان کو گرفتار کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جو بریگیڈیئر خان سے رابطے میں تھے۔

کالعدم حزب التحریر ایک اسلامی تنظیم ہے جو مسلمان ملکو ں کو اسلامی قوانین کے تحت متحد کر کے خلافت قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ یہ تنظیم برطانیہ میں خاصی سرگرم ہے لیکن مسلمان ملکوں بشمول پاکستان میں حکومتوں کا تختہ الٹنے کی حمایت کرنے پر اسے کالعدم قراردیا گیا ہے۔

حزب التحریر کا موقف ہے کہ وہ تشدد کی وکالت نہیں کرتی لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کے اسلامی عسکری تنظیموں سے روابط ہیں اور یہ نوجوانوں کو انتہا پسندی کی ترغیب دیتی ہے۔

اسلام آباد میں واقع پاکستانی فوج کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق بریگیڈیئر خان ’’آرمڈ فورسز وار کالج‘‘ کی فیکلٹی کا حصہ ہیں۔

حال ہی میں وکی لیکس نے جن بعض خفیہ امریکی مراسلوں کو افشا کیا تھا ان کے مطابق اس یونیورسٹی میں کچھ اساتذہ فوجی افسران میں امریکہ مخالف جذبات کو فروغ دیتے ہیں۔ تاہم یونیورسٹی میں تربیت دینے والے اساتذہ اور انتظامیہ نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG