رسائی کے لنکس

امریکہ نے جاپانی حکومت کی بھی جاسوسی کی، وکی لیکس


فائل
فائل

'وکی لیکس' کے مطابق امریکی انٹیلی جنس ایجنسی ان جاپانی اداروں اور شخصیات کی 2006ء سے جاسوسی کر رہی ہے۔

'وکی لیکس' نے انٹرنیٹ پر امریکی حکومت کی مزید خفیہ دستاویزات جاری کی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے جاپان کےاعلیٰ حکام اور کمپنیوں کی جاسوسی میں بھی ملوث رہے ہیں۔

خفیہ سرکاری دستاویزات اور راز افشا کرنے کے لیے مشہور ویب سائٹ نے جمعے کو جاپان کی ان 35 کمپنیوں، سرکاری وزارتوں اور شخصیات کی فہرست شائع کی ہے جو اس کے مطابق امریکی خفیہ ادارے 'نیشنل سکیورٹی ایجنسی' (این ایس اے) کی نگرانی کا ہدف رہے ہیں۔

'وکی لیکس' کے مطابق اسے دستیاب سرکاری دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی ان جاپانی اداروں اور شخصیات کی 2006ء سے جاسوسی کر رہی تھی۔

ویب سائٹ انتظامیہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور جاپان کے باہمی تعلقات، دو طرفہ تجارت کے فروغ کے لیے ہونے والےمذاکرات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے مقابلے کے لیے اختیار کی جانے والی حکمتِ عملی جیسے معاملات امریکی خفیہ ادارے کی جاپان میں انٹیلی جنس سرگرمیوں کا خاص ہدف رہے۔

وکی لیکس نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ 'این ایس اے' نے جاپانی اداروں کی جاسوسی سے حاصل ہونےوالے معلومات آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا اور نیوزی لینڈ سمیت اپنے "انٹیلی جنس شراکت داروں" کو بھی فراہم کیں۔

امریکہ اور جاپان دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے قریبی دوست اور اتحادی ہیں اور 'وکی لیکس' کی جانب سے امریکی حکومت کی ان خفیہ سرکاری دستاویزات کےا جرا سے دونوں حکومتوں کے تعلقات کشیدہ ہونے کا خدشہ ہے۔

دریں اثنا جاپان کی وزارتِ خارجہ نے 'وکی لیکس' کے بیان پر اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ جاپان کی حکومت امریکی خفیہ ادارے کی جانب سے "معلومات اکٹھی کرنے" کے معاملے پر امریکہ کے ساتھ رابطے میں ہے۔

جاپانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان یاسو ہیسا کاوامورا نے جمعے کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جاپانی حکومت اپنی معلومات کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔

جاپان میں قائم امریکی سفارت خانے نے اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ وہ 'وکی لیکس' کی جانب سے جاری کی جانے والی سرکاری دستاویزات کے معاملے سے "آگاہ" ہے۔ سفارت خانے نے اس معاملے پر مزید ردِ عمل دینے سے معذرت ظاہر کی ہے۔

اس سے قبل رواں سال جون میں وکی لیکس نے بعض ایسی خفیہ امریکی دستاویزات جاری کی تھیں جن سے ظاہر ہوا تھا کہ امریکی خفیہ ادارہ 'این ایس اے' فرانس کے موجودہ اور دو سابق صدور کی جاسوسی میں بھی ملوث رہا ہے۔

ان دستاویزات کی اشاعت کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تنازع کھڑا ہوگیا تھا اور فرانس کی حکومت نے امریکہ سے اس بارے میں وضاحت طلب کی تھی۔

امریکہ کی جانب سے اپنے اتحادی ملکوں کے سربراہان، اعلیٰ حکام اور اداروں کی جاسوسی کا معاملہ سب سے پہلے 2013ء میں سامنے آیا تھا جب 'وکی لیکس' نے امریکہ کی 'نیشنل سکیورٹی ایجنسی' کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے چرائی جانے والی ہزاروں دستاویزات انٹرنیٹ پر جاری کردی تھیں۔

امریکہ کے اتحادی ممالک - خصوصاً جرمنی اور دیگر یورپی ملکوں نے ان اطلاعات پر امریکی حکومت کے ساتھ سخت احتجاج کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG