رسائی کے لنکس

اسلام آباد: مارگلہ ہلز پر آگ لگانے کے الزام میں ٹک ٹاکر کے خلاف مقدمہ،سوشل میڈیا پر تنقید


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسلام آباد کی پولیس نے ویڈیو بنانے کے لیے مبینہ طور پر مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں آگ لگانے پر مشہور ٹک ٹاکر 'ڈولی'کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر بھی مارگلہ ہلز واقعے پر صارفین مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔

پاکستان میں سوشل میڈیا پرگزشتہ دو روز سے کچھ مختصر ویڈیوز وائرل ہیں جن میں ایک خاتون جنگل میں چل کر آ رہی ہیں۔ اس ویڈیو کے بیک گراؤنڈ میں موجود جنگلات میں آگ لگی ہوئی ہے اور وہ خاتون اس آگ کی طرف اشارہ کر رہی ہیں جب کہ ان ویڈیوز میں گانے بھی چل رہے ہیں۔

ٹک ٹاک کی یہ مختصر دورانیے کی ویڈیوز مشہور ٹک ٹاکر 'ڈولی' کی ہیں۔ مارگلہ ہلز سے متعلق ویڈیوز ڈولی کے آفیشل ٹک ٹاک اکاؤنٹ پر موجود نہیں ہے۔ البتہ جو لباس انہوں نے ان ویڈیوز میں پہنا ہوا ہے اس لباس میں مختلف ویڈیوز ڈولی کے ٹک ٹاک اکاؤنٹ پر موجود ہیں۔

سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد خاتون پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ اسلام آباد پولیس نے اسٹنٹ ڈائریکٹر پروٹیکشن شعبہ ماحولیات کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی اعجاز الحسن کی مدعیت میں خاتون کے خلاف مقدمہ بھی درج کرلیا ہے۔

اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں درج مقدمے میں 'ڈولی' نامی ٹک ٹاکر کو نامزد کیا گیا ہے۔

تھانے میں درج ایف آئی آر کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک پر ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں ٹک ٹاکر ڈولی جنگل میں آگ لگا کر ویڈیو شوٹ کرا رہی ہیں۔

ایف آئی آر کے مطابق ویڈیو کا یہ مقام مبینہ طور پر مارگلہ ہلز نیشنل پارک کا علاقہ ہے جہاں گزشتہ ایام میں آتش زدگی کے واقعات ہو چکے ہیں جس سے پودوں، چرند پرند اور گھاس کو نقصان پہنچا ہے۔

ٹک ٹاکر کے خلاف مذکورہ ایف آئی آر لینڈ اسکیپ ایکٹ 1966، فارسٹ ایکٹ 1927، وائلڈ لائف ایکٹ 1979، انوائرمینٹ پروٹیکشن ایکٹ 1997 اور تعزیراتِ پاکستان کی متعلقہ دفعات کے تحت درج کی گئی ہے۔

دوسری جانب اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی چیئرپرسن رینا سعید خان نے کہا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ایسی چار ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں اور یہ ٹرینڈ کافی خطرناک شدت اختیار کر رہا ہے۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے نذرالاسلام سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے کیوں کہ حالیہ واقعات میں جنگلات کو کافی نقصان پہنچا ہے۔

ان کے مطابق بدقسمتی سے پاکستان میں قوانین بہت کمزور ہیں۔ سزائیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور ملزمان جلد بچ کر نکل جاتے ہیں۔

رینا سعید کا کہنا تھا کہ ملک میں خشک سالی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی عروج پر ہے اور بارشیں نہیں ہو رہی ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ کہیں صورتِ حال آسٹریلیا کی طرح نہ ہو جائے جہاں جب ایک دفعہ آگ بھڑک اٹھتی ہے تو پھر قابو میں نہیں آتی۔

خیال رہے کہ مارگلہ ہلز پر اتوار کی شام آگ بھڑک اٹھی تھی جو کئی گھنٹوں تک لگی رہی تھی۔ آگ کے باعث جنگلی حیات کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔

جنگل میں آگ لگا کر ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ حال ہی میں صوبۂ خیبرپختونخوا کی پولیس نے ایبٹ آباد میں اسی نوعیت کی ویڈیو بنانے پر ایک نوجوان کو گرفتار کیا ہے۔

مذکورہ ویڈیو میں ایک ٹک ٹاکر کے عقب میں آگ کے شعلوں کو واضح طور پر دیکھا گیا تھا۔

ہزارہ وائلڈ لائف سے تعلق رکھنے والے اہلکار سردار نواز نے کہا ہے کہ شدید گرمی کے باعث جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ محکمے کے اہلکار چاق و چوبند ہیں اور ایسے متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اب تک کم پیمانے پر جنگلات کو نقصان پہنچا ہے۔

سردار نواز کے بقول اگر ایک جانب آگ سے جنگل کو وقتی طور پر نقصان پہنچتا ہے تو دوسری جانب یہی آگ مستقبل میں جنگل کی افزائش میں مثبت کردار ادا کرتی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ بدقسمتی سے اب ٹک ٹاک ویڈیوز فیشن اختیار کر گئی ہیں اور ہر کوئی اپنے بیک گراؤنڈ میں آگ لگا کر ویڈیوز بنا رہا ہے۔

ان کے بقول اس روایت کو ختم کرنا ہوگا کیوں کہ مستقبل میں اس کے خطرناک نتائج ہوسکتے ہیں۔

ادھر اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے اہلکار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خاتون ٹک ٹاکر کی ویڈیو مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں بنی ہی نہیں بلکہ یہ ہزارہ موٹروے کے احاطے میں بنی ہے۔

رینا سعید خان بھی اس سے اتفاق کرتی ہیں۔ مگر ان کا کہنا ہے کہ سوال یہ نہیں کہ ویڈیو مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں بنی ہے یا ہزارہ موٹروے کے علاقے میں۔ بلکہ اس نئے رجحان کو بدلنا ہوگا تا کہ نوجوان اس غلط عمل کو چھوڑ کر مثبت سرگرمیاں اپنا کر اپنے شوق پورے کریں۔

علاوہ ازیں وائس آف امریکہ نے خاتون ٹک ٹاکر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن خبر کی اشاعت تک ان کا جواب موصول نہیں ہو سکا۔

سوشل میڈیا پر خاتون کے خلاف کارروائی کا مطالبہ

اس ویڈیوز پر سوشل میڈیا بالخصوص ٹوئٹر پر صارفین مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں اور حکام سے خاتون کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی کھیئل داس کوہستانی نامی نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا کہ اسلام آباد میں مارگلہ پہاڑیوں کو آگ لگا کر ماڈلنگ جاری، انتظامیہ کو خبر نہ ہوئی۔

رکن قومی اسمبلی کا مزید کہنا تھا کہ محکمۂ جنگلات کو جواب دینا پڑے گا کہ انہوں نے اس کی اجازت کیسے دی اور اگر اجازت نہیں دی تو وہ کہاں سو رہے تھے؟

انہوں نے زور دے کر کہا کہ متعلقہ افسران اور اس خاتون ڈولی کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔

اسی سوشل میڈیا پوسٹ کا جواب دیتے ہوئے صحافی حامد میر نے کہا کہ ان خاتون کو ڈھونڈ کر ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔

صحافی رضا احمد رومی نے ایک لنک شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ نوجوان ٹک ٹاک صارفین میں بظاہر ایک پریشان کن نیا رجحان بڑھ رہا ہے جو اپنی ویڈیوز کے لیے جنگلات کو آگ لگا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دو نے مارگلہ ہلز پر یہ شروع کیا تھا جب کہ ایک ٹک ٹاکرز کی جانب سے ایبٹ آباد میں یہ کیا گیا جنہوں نے ویڈیوز بنانے کے لیے بے دردی سے جنگلات کو آگ لگائی۔

دو کتابوں کی مصنفہ اور ماحولیات کے حوالے سے کام کرنے والی رینا ایس خان ستی نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ ٹک ٹاک پر یہ پریشان کن اور تباہ کن رجحان ہے۔ فالوورز کے لیے بے تاب نوجوان لوگ اس گرم اور خشک موسم میں ہمارے جنگلات کو آگ لگا رہے ہیں۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ آسٹریلیا میں جو ایسا کرتا ہے اس کی سزا عمر قید ہے۔ پاکستان میں بھی اس طرح کی قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔

صحافی نائلہ عنایت نے ایک پوسٹ میں کہا کہ پاکستانی ماڈل اور ٹک ٹاکر ڈولی کی کپڑوں کے برینڈ کے لیے پروموشنل ویڈیو جنگل کے ایک حصے کو آگ لگا کر شوٹ کی گئی۔ ان لوگوں کے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔

ولی خان نامی ایک صارف نے لکھا کہ یہ ہمارے لوگوں کی ذہنیت ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ صرف ٹک ٹاک ویڈیو کے لیے، ٹک ٹاکر ڈولی نے مارگلہ ہلز کے جنگلات کو آگ لگا دی۔ انہیں ان کی اس حماقت پر سزا ملنی چاہیے۔

رینا ایس خان ستی نے ایک اور ویڈیو شیئر کی جس میں جو لوگ جنگلات کو آگ لگاتے ہیں وہ جنگلی حیات کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں نہیں سمجھتے۔

انہوں نے کہا کہ مارگلہ میں یہ وقت پرندوں کے لیے بریڈنگ سیزن ہے اور ان کے گھونسلے آگ کی وجہ سے تباہ ہو گئے ہیں۔

ڈولی کون ہیں؟

سوشل میڈیا پر 'ڈولی' کے نام سے مشہور خاتون کا اصل نام نوشین ہے اور وہ نہ صرف ٹک ٹاکر ہیں بلکہ اپنا بوتیک اور سیلون بھی چلا رہی ہیں۔

ڈولی پاکستان کی بڑی ٹک ٹاکرز میں سے ایک ہیں اور ان کے ٹک ٹاک پر فالوورز کی تعداد ایک کروڑ 15 لاکھ سے زائد ہے۔

اس کے علاوہ انسٹاگرام پر بھی وہ چار لاکھ 75 ہزار سے زائد فالوورز رکھتی ہیں جب کہ ٹک ٹاک پر ان کی مجموعی ویڈیوز کو لگ بھگ 32 کروڑ مرتبہ پسند کیا جا چکا ہے۔

XS
SM
MD
LG