لیبیا بھر کے زیادہ تر علاقوں میں ووٹنگ مکمل ہو چکی ہے اور انتخابات کے اعلان میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔ لیکن، لیبیا کے متعددلوگوں نے فرط مسرت سے بے قابو ہو کر خوشی میں سڑکوں کا رخ کیا۔
ہفتے کو پولنگ کے دوران طرابلس کی پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈالنے کےلیے لوگ جوق در جوق آتے رہے، اس امید کے ساتھ کہ ملک میں 60برس کے بعد ہونے والےیہ پہلےکثیر جماعتی انتخابات ملک میں ایک نئے عہد کا آغاز ثابت ہوں گے۔ دارالحکومت کے کچھ حصوں میں پولنگ شروع ہونے سے ایک گھنٹہ قبل ہی ووٹروں کےہجوم جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔
طرابلس میں اللہ ورث نامی ایک شخص لیبیا سے منسلک نئی توقعات پرخوش نظر آئے، جسے مطلق العنان معمر قذافی کے چنگل سے آزادی نصیب ہوئی۔
اُن کے بقول، یہ ایک بڑا دن ہے۔ یہ میرے لیے ایک اہم دن ہے، کیونکہ ہم نے قذافی کے خلاف فتح حاصل کی ہے اور اب ہم خوش ہیں۔ اب ہم ایک نئے لیبیا کی تعمیر کریں گے۔
اِسی طرح، طرابلس کی ایک اور ووٹر، کاملہ رفیفی بہت خوش نظر آئیں۔
اُن کے بقول، میرے لیے یہ دن ایک خواب کا سا درجہ رکھتا ہے۔ درحقیقت میں اپنی زندگی میں یہ دِن دیکھنے کی توقع نہیں رکھتی تھی۔ میں بہت خوش ہوں۔ تاریخ میں اس دن کا ایک مقام ہے۔ اس سے پہلے ہم اس کی توقع نہیں کرتے تھے۔
ہفتے کی ووٹنگ زیادہ تر پُر امن اور بہت ہی منظم رہی۔ جان اسٹرملو کا تعلق امریکہ میں قائم کارٹر سینٹر سے۔ وہ انتخابی مبصر تھے۔ اُنھوں نے انتخابی عمل کی تعریف کی۔
اُن کے بقول، کوئی بھی الیکشن آسان نہیں ہوتا۔ اور ایسے ملک میں جو ایک طویل عرصے سےتنہا رہ چکا ہو، اُس میں تیزی کے ساتھ ریاست کے اداروں کی تعمیر کرنا، اور پچھلے 11ماہ میں اتنی پیش رفت دکھانا قابل ِقدر بات ہے۔یہ بات لیبیا کے لوگوں کے لیے فخر کا باعث ہونی چاہیئے۔ اُنھوں نے تیز پیش رفت دکھائی ہے۔
200 نشستوں والی قومی اسمبلی کے لیے تقریباً 30 لاکھ رجسٹرڈ ووٹروں نے اپنا رائے دہی کا حق استعمال کیا۔ اِس اسمبلی کا کام ایک عبوری حکومت تشکیل دینا ہے جو اگلے سال کےبھرپور پارلیمانی انتخابات سےقبل ملک کا آئین تیار کرے گی۔
انتخابی عہدے داروں نے بتایا کی قائم کردہ پولنگ اسٹیشنز میں سے94فی صد نے کام کیا۔ واحد مسئلہ لیبیا کے مشرقی علاقے سے سامنے آیا، جن میں بن غازی اور ادبیہ کے علاقے شامل ہیں، جہاں احتجاج کرنے والوں نے کچھ پولنگ اسٹیشنوں کے بارے میں اعتراض اٹھایا اور بیلٹ پیپرز کو نذر آتش کیا۔
ادبیہ میں، الیکشن افسر مفتاح المجریاف نے بتایا کہ اس واقع کے بعدنوجوان فوری طور پرحرکت میں آئے۔
اُن کے بقول، ہمیں اُس وقت حیرت ہوئی جب ایک گروپ نے پولنگ اسٹیشن پر مامور محافظوں پرحملہ کردیا، اور اُنھوں نے بیلٹ باکسز کو آگ لگادی۔ ۔۔ پھر، علاقے کے نوجوانوں نے پولنگ اسٹیشنوں کی حفاظت کے لیے مزید سکیورٹی فراہم کی۔
اِن مسائل کے باوجود، امریکی سینیٹر جان مک کین نے لیبیا کی طرف سے کیے گئے اقدامات کوسراہا ہے۔
ہفتے کو پولنگ کے دوران طرابلس کی پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈالنے کےلیے لوگ جوق در جوق آتے رہے، اس امید کے ساتھ کہ ملک میں 60برس کے بعد ہونے والےیہ پہلےکثیر جماعتی انتخابات ملک میں ایک نئے عہد کا آغاز ثابت ہوں گے۔ دارالحکومت کے کچھ حصوں میں پولنگ شروع ہونے سے ایک گھنٹہ قبل ہی ووٹروں کےہجوم جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔
طرابلس میں اللہ ورث نامی ایک شخص لیبیا سے منسلک نئی توقعات پرخوش نظر آئے، جسے مطلق العنان معمر قذافی کے چنگل سے آزادی نصیب ہوئی۔
اُن کے بقول، یہ ایک بڑا دن ہے۔ یہ میرے لیے ایک اہم دن ہے، کیونکہ ہم نے قذافی کے خلاف فتح حاصل کی ہے اور اب ہم خوش ہیں۔ اب ہم ایک نئے لیبیا کی تعمیر کریں گے۔
اِسی طرح، طرابلس کی ایک اور ووٹر، کاملہ رفیفی بہت خوش نظر آئیں۔
اُن کے بقول، میرے لیے یہ دن ایک خواب کا سا درجہ رکھتا ہے۔ درحقیقت میں اپنی زندگی میں یہ دِن دیکھنے کی توقع نہیں رکھتی تھی۔ میں بہت خوش ہوں۔ تاریخ میں اس دن کا ایک مقام ہے۔ اس سے پہلے ہم اس کی توقع نہیں کرتے تھے۔
ہفتے کی ووٹنگ زیادہ تر پُر امن اور بہت ہی منظم رہی۔ جان اسٹرملو کا تعلق امریکہ میں قائم کارٹر سینٹر سے۔ وہ انتخابی مبصر تھے۔ اُنھوں نے انتخابی عمل کی تعریف کی۔
اُن کے بقول، کوئی بھی الیکشن آسان نہیں ہوتا۔ اور ایسے ملک میں جو ایک طویل عرصے سےتنہا رہ چکا ہو، اُس میں تیزی کے ساتھ ریاست کے اداروں کی تعمیر کرنا، اور پچھلے 11ماہ میں اتنی پیش رفت دکھانا قابل ِقدر بات ہے۔یہ بات لیبیا کے لوگوں کے لیے فخر کا باعث ہونی چاہیئے۔ اُنھوں نے تیز پیش رفت دکھائی ہے۔
200 نشستوں والی قومی اسمبلی کے لیے تقریباً 30 لاکھ رجسٹرڈ ووٹروں نے اپنا رائے دہی کا حق استعمال کیا۔ اِس اسمبلی کا کام ایک عبوری حکومت تشکیل دینا ہے جو اگلے سال کےبھرپور پارلیمانی انتخابات سےقبل ملک کا آئین تیار کرے گی۔
انتخابی عہدے داروں نے بتایا کی قائم کردہ پولنگ اسٹیشنز میں سے94فی صد نے کام کیا۔ واحد مسئلہ لیبیا کے مشرقی علاقے سے سامنے آیا، جن میں بن غازی اور ادبیہ کے علاقے شامل ہیں، جہاں احتجاج کرنے والوں نے کچھ پولنگ اسٹیشنوں کے بارے میں اعتراض اٹھایا اور بیلٹ پیپرز کو نذر آتش کیا۔
ادبیہ میں، الیکشن افسر مفتاح المجریاف نے بتایا کہ اس واقع کے بعدنوجوان فوری طور پرحرکت میں آئے۔
اُن کے بقول، ہمیں اُس وقت حیرت ہوئی جب ایک گروپ نے پولنگ اسٹیشن پر مامور محافظوں پرحملہ کردیا، اور اُنھوں نے بیلٹ باکسز کو آگ لگادی۔ ۔۔ پھر، علاقے کے نوجوانوں نے پولنگ اسٹیشنوں کی حفاظت کے لیے مزید سکیورٹی فراہم کی۔
اِن مسائل کے باوجود، امریکی سینیٹر جان مک کین نے لیبیا کی طرف سے کیے گئے اقدامات کوسراہا ہے۔