ستاروں بھرا آسمان جس کا ذکر ہمارے آباوٴاجداد کیا کرتے تھے اب دنیا کی اکثر آبادی کیلئے غائب ہو رہا ہے۔
دنیا بھر میں اب مصنوعی روشنیاں ایک اور شہری آلودگی بن چکی ہیں۔ ان کی وجہ سے ہم رات کو آسمان نہیں دیکھ پاتے۔ مصنوعی روشنیاں زمین پر موجود دوربینوں کو دھندلا کر دیتی ہیں اور انسانی صحت اور ماحولیاتی نظام کیلئے مضر ہیں۔
یہی موضوع ہے آئن چینی کی ہدایات میں بننے والی نئی ڈاکومنٹری فلم ’’دی سٹی ڈارک‘‘ کا۔
آئن چینی نے بتایا کہ ’’فلم بہت سادہ سوال سے شروع ہوتی ہے۔ یہ کہ اگر ہم رات، اس کے اندھیرے اور آسمان کو کھو دین تو ہم کیا کھوئیں گے۔‘‘
یہ چینی کیلئے ایک ذاتی سوال بھی ہے اور آفاقی بھی۔ ذاتی اسلئے کیونکہ چینی نے اپنا بچپن ریاست مین کے ایک دیہاتی علاقے میں واقع اپنے خاندانی فارم پر ستارے گننے میں گذارا تھا۔ مگر جب وہ نوجوانی میں نیویارک آ گئے تو رات کے آسمان کی کمی محسوس کرنے لگے۔
چینی کہتے ہیں، ’’دنیا میں بہت سے بچے اب لاکھوں کروڑوں ستاروں پر مشتمل کہکشاں کو دیکھے بغیر بڑے ہو رہے ہیں۔ ہمارا شمسی نظام بھی اسی کہکشاں کا حصہ ہے۔‘‘ چینی کا سوال یہ ہے کہ جب لوگ رات کے آسمان کے بغیر زندگی کے عادی ہو جائیں گے تو اس کاکیا اثر ہو گا۔ ’’کیا اس سے کم سائنسدان پیدا ہوں گے، کم شاعر ہونگے، یا کم فلسفی پیدا ہونگے۔ ان سوالوں کا جواب ملے نہ ملے مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ رات کے آسمان کے خوبصورت نظارے کو دیکھ کر آپ کو تخلیقی کام کرنے کی بہت تحریک ملتی ہے۔‘‘
آسمان مشاہدہ کرنے سے سائنسی علم بھی حاصل ہوتا ہے۔ فلکیات کے ماہرین خلاء کا مشاہدہ کرکے اس سے کائنات کے آغاز کا سراغ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔
مگر بڑے شہروں میں آسمان کا مشاہدہ کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ستاروں کی روشنی شہروں کی فضا میں موجود گرد کے ذرات سے ٹکرا کر پھیل جاتی ہے اور گلابی مائل تمتماہٹ پیدا کرتی ہے۔ اس سے چند بہت چمکدار ستاروں کے علاوہ تمام ستاروں کی چمک ماند پڑ جاتی ہے۔
مصنوعی روشنی سے انسان کے عشق کو داستان سمجھنا آسان ہے۔ ہزاروں سال تک ہمارے پاس رات کو چلنے اور حفاظت کیلئے صرف آگ اور مشعل کی روشنی تھی۔ انیسویں صدی میں شہروں کی سڑکوں کو روشن کرنے اور جرائم کم کرنے کیلئے گیس کی روشنی ایجاد کی گئی۔ بلب اور ٹیوب کی روشنی بیسویں صدی میں متعارف کرائی گئی، جس کے بعد شہر مستقل روشن رہنے لگے۔
مگر جہاں مصنوعی روشنی ہمیں راستہ دکھاتی ہے وہیں یہ جانوروں اور پرندوں کو راستہ بھلا دیتی ہے۔
مثلاً ہجرت کرنے والے کئی پرندوں کے دماغ میں ستاروں کا نقشہ محفوظ ہوتا ہے جو ان کو بہار میں شمال کے طرف اور خزاں میں جنوب کی طرف سفر کرنے میں مدد دیتا ہے۔جب پرندے شہروں کے اوپر سے گذرتے ہیں تو وہ اکثر مصنوعی روشنیوں کو ستاروں کی روشنی سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ان میں سے اکثر روشنی کے تعاقب میں کھڑکیوں کے شیشوں سے ٹکرا کر مر جاتے ہیں۔
شکاگو کے فیلڈ میوزیم میں زولوجسٹ ڈیوڈ وِلرڈ کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ہر سال تقریباً ایک ارب پرندے کھڑکیوں سے ٹکرا کر موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
بہت زیادہ روشنی انسان کی دل کی دھڑکن پر بھی اثرانداز ہوتی ہےجس کا تعلق روازنہ روشنی اور اندھیرے کے سائیکل سے ہے۔
یونیورسٹی آف کنکٹی کٹ ہیلتھ سنٹر میں کام کرنے والے وبائی امراض کے ماہر رچرڈ سٹیون کہتے ہیں کہ ایسے شواہد موجود ہیں جن سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مصنوعی روشنی میں بہت زیادہ میں کام کرنے سے خواتین کو چھاتی کے سرطان کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
دنیا بھر میں اب مصنوعی روشنیاں ایک اور شہری آلودگی بن چکی ہیں۔ ان کی وجہ سے ہم رات کو آسمان نہیں دیکھ پاتے۔ مصنوعی روشنیاں زمین پر موجود دوربینوں کو دھندلا کر دیتی ہیں اور انسانی صحت اور ماحولیاتی نظام کیلئے مضر ہیں۔
یہ سوال ذاتی بھی ہے اور آفاقی بھی ...
یہی موضوع ہے آئن چینی کی ہدایات میں بننے والی نئی ڈاکومنٹری فلم ’’دی سٹی ڈارک‘‘ کا۔
آئن چینی نے بتایا کہ ’’فلم بہت سادہ سوال سے شروع ہوتی ہے۔ یہ کہ اگر ہم رات، اس کے اندھیرے اور آسمان کو کھو دین تو ہم کیا کھوئیں گے۔‘‘
یہ چینی کیلئے ایک ذاتی سوال بھی ہے اور آفاقی بھی۔ ذاتی اسلئے کیونکہ چینی نے اپنا بچپن ریاست مین کے ایک دیہاتی علاقے میں واقع اپنے خاندانی فارم پر ستارے گننے میں گذارا تھا۔ مگر جب وہ نوجوانی میں نیویارک آ گئے تو رات کے آسمان کی کمی محسوس کرنے لگے۔
چینی کہتے ہیں، ’’دنیا میں بہت سے بچے اب لاکھوں کروڑوں ستاروں پر مشتمل کہکشاں کو دیکھے بغیر بڑے ہو رہے ہیں۔ ہمارا شمسی نظام بھی اسی کہکشاں کا حصہ ہے۔‘‘ چینی کا سوال یہ ہے کہ جب لوگ رات کے آسمان کے بغیر زندگی کے عادی ہو جائیں گے تو اس کاکیا اثر ہو گا۔ ’’کیا اس سے کم سائنسدان پیدا ہوں گے، کم شاعر ہونگے، یا کم فلسفی پیدا ہونگے۔ ان سوالوں کا جواب ملے نہ ملے مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ رات کے آسمان کے خوبصورت نظارے کو دیکھ کر آپ کو تخلیقی کام کرنے کی بہت تحریک ملتی ہے۔‘‘
آسمان مشاہدہ کرنے سے سائنسی علم بھی حاصل ہوتا ہے۔ فلکیات کے ماہرین خلاء کا مشاہدہ کرکے اس سے کائنات کے آغاز کا سراغ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔
مگر بڑے شہروں میں آسمان کا مشاہدہ کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ستاروں کی روشنی شہروں کی فضا میں موجود گرد کے ذرات سے ٹکرا کر پھیل جاتی ہے اور گلابی مائل تمتماہٹ پیدا کرتی ہے۔ اس سے چند بہت چمکدار ستاروں کے علاوہ تمام ستاروں کی چمک ماند پڑ جاتی ہے۔
مصنوعی روشنی سے انسان کے عشق کو داستان سمجھنا آسان ہے۔ ہزاروں سال تک ہمارے پاس رات کو چلنے اور حفاظت کیلئے صرف آگ اور مشعل کی روشنی تھی۔ انیسویں صدی میں شہروں کی سڑکوں کو روشن کرنے اور جرائم کم کرنے کیلئے گیس کی روشنی ایجاد کی گئی۔ بلب اور ٹیوب کی روشنی بیسویں صدی میں متعارف کرائی گئی، جس کے بعد شہر مستقل روشن رہنے لگے۔
مگر جہاں مصنوعی روشنی ہمیں راستہ دکھاتی ہے وہیں یہ جانوروں اور پرندوں کو راستہ بھلا دیتی ہے۔
مثلاً ہجرت کرنے والے کئی پرندوں کے دماغ میں ستاروں کا نقشہ محفوظ ہوتا ہے جو ان کو بہار میں شمال کے طرف اور خزاں میں جنوب کی طرف سفر کرنے میں مدد دیتا ہے۔جب پرندے شہروں کے اوپر سے گذرتے ہیں تو وہ اکثر مصنوعی روشنیوں کو ستاروں کی روشنی سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ان میں سے اکثر روشنی کے تعاقب میں کھڑکیوں کے شیشوں سے ٹکرا کر مر جاتے ہیں۔
شکاگو کے فیلڈ میوزیم میں زولوجسٹ ڈیوڈ وِلرڈ کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ہر سال تقریباً ایک ارب پرندے کھڑکیوں سے ٹکرا کر موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
مصنوعی روشنی کے باعث جانور اور پرندے راستہ بھول جاتے ہیں ......
بہت زیادہ روشنی انسان کی دل کی دھڑکن پر بھی اثرانداز ہوتی ہےجس کا تعلق روازنہ روشنی اور اندھیرے کے سائیکل سے ہے۔
یونیورسٹی آف کنکٹی کٹ ہیلتھ سنٹر میں کام کرنے والے وبائی امراض کے ماہر رچرڈ سٹیون کہتے ہیں کہ ایسے شواہد موجود ہیں جن سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مصنوعی روشنی میں بہت زیادہ میں کام کرنے سے خواتین کو چھاتی کے سرطان کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔