رسائی کے لنکس

بھارتی جوہری تنصیبات ’ہائی الرٹ‘


فائل
فائل

گرفتار کیے جانے والوں میں ڈفنس ریسرچ اینڈ ڈولپمنٹ آرگنائزیشن کا ایک سائنس دان اور ایک انگریزی روزنامہ اخبار کا نامہ نگار بھی شامل ہے۔ اُن پر الزام ہے کہ اُنھوں نے اراکینِ پارلیمنٹ و اسمبلی، صحافیوں اور وِشو ہندو پریشد کے لیڈروں پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا

بھارت کی مختلف ریاستوں میں انسدادِ دہشت گردی دستوں کے چھاپوں اور متعدد مشتبہ نوجوانوں کی گرفتاری کے بعد ملک کی تمام جوہری تنصیبات کے لیے ہائی الرٹ جاری کیا گیا ہے۔

تنصیبات کے تحفظ کی ذمہ دار، سینٹرل انڈیسٹریل سکیورٹی فورس (سی آئی ایس ایف) نے یہ شبہ ظاہر کرتے ہوئے کہ جوہری تنصیبات مشبتہ دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں، یہ اقدام اٹھایا ہے۔

یہ کارروائی گرفتار مشتبہ نوجوانوں سے کرناٹک پولیس کے ذریعے پوچھ گچھ کا دائرہ بڑھانے اور مہاراشٹر کےشہر ناڈیڈ سے چار اور حیدرآباد سے ایک مشتبہ شخص کی گرفتاری کے بعد کی گئی ہے۔

ادارے کے ڈائرکٹر جنرل نے میڈیا کو اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ ہم نے اپنی تمام تنظیموں کو ’جنرل الرٹ‘ جاری کیا ہے۔

اِس سے قبل ہفتے کے روز وزارتِ داخلہ نے اِس بات کی تصدیق کی تھی کہ دفاعی اور جوہری تنصیبات کرناٹک کے مشتبہ دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں، بنگلور سے 500کلومیٹر دور کائیگا ایٹومک پاور اسٹیشن کی سکیورٹی سب سے پہلے بڑھائی گئی۔

مہاراشٹر کے انسداد دہشت گردی دستے نے ہفتے کے روز ناڈیڈ سے چار مسلم نوجوانوں اور حیدرآباد سے ایک مسلم طالب علم کو دہشت گردی کے شبہے میں گرفتار کیا ہے، جب کہ جمعرات کے روز بنگلور اور ہُبلی سے 11مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا تھا، جِن میں ڈفنس ریسرچ اینڈ ڈولپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) کا ایک سائنس دان اور ایک انگریزی روزنامہ اخبار کا نامہ نگار بھی شامل ہے۔

اُن پر الزام ہے کہ اُنھوں نے اراکینِ پارلیمنٹ و اسمبلی، صحافیوں اور وشو ہندو پریشد کے لیڈروں پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا۔


ذرائع کے مطابق، پولیس نے اُن کے قبضے سے غیر ملکی ساخت کا ایک پستول اور 14راؤنڈ اورایک لیپ ٹاپ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

انسدادِ دہشت گردی کے دستوں اور حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ گرفتار شدگان کا تعلق ’لشکرِ طیبہ‘ اور ’حرکت الجہاد اسلامی‘ سے ہے۔

یہ مسلم نوجوان القاعدہ کی ویب سائٹ کے مضامین سے متاثر تھے، جِن میں افغانستان میں القاعدہ کی سرگرمیوں کی تعریف اور ستائش کی گئی ہے۔

تمام گرفتار مسلم نوجوان 20سے30سال کی عمر کے درمیان ہیں۔ اِن نوجوانوں کے والدین اور اہلِ خانہ نےاخباری کانفرنس کرکے اُن کے بے قصور ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔

اُنھوں نے الزام لگایا ہے کہ پولیس نے اُن کے بچوں کی گرفتاری کی اطلاع تک اُنھیں نہیں دی۔

تاہم، اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ اُنھیں عدالتوں پر بھروسہ ہے۔ اگر یہ لوگ بے قصور ہیں تو اُنھیں سزا ملنی چاہیئے، ورنہ گرفتار کرنے والے پولیس والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیئے۔

دریں اثنا، متعدد مسلم تنظیموں کے ایک فیڈریشن نے کرناٹک کے وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ سے ملاقات کرکے گرفتار نوجوانوں کے بے قصور ہونے کی بات کی ہے اور اُنھیں رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG