رسائی کے لنکس

مریض کو سونگھ کر مرض بتانے والی مشین


بہت جلد ایک ناخن جتنی چھوٹی سی چپ میں کتے کی طاقتور سونگھنے کی حس موجود ہوگی یہ ایک ڈیوائس ہوگی جسے اسپتالوں میں استعمال کیا جائے گا ۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ طب کے شعبے میں بہت جلد ایسی انقلابی مشینیں متعارف کرائی جائیں گی جو انسان کو سونگھ کر کینسر سمیت دیگر بیماریوں کی بہتر تشخیص کرسکیں گی۔

گذشتہ دنوں کینسر کی بو سونگھنے والی ایک ایسی مشین کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے جو چھاتی کے سرطان کی ابتدائی تشخیص میں میموگرام جتنی ہی کارآمد ثابت ہوئی ہے۔

طبی جریدے سینسر میں معالجین لکھتے ہیں کہ میڈیکل سائنس کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہےکہ ڈاکٹرز پہلے بھی مریض کی سانس، پسینے اور پیشاب کی بو سے بیماری کی تشخیص میں مدد لیا کرتے تھے مگر بالآخر ایک ایسی مشین تیار کر لی گئی ہےجو مرض کی ابتدائی مرحلے میں شناخت کر سکتی ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پچھلی جائزہ رپورٹ میں ایسی بیماریوں کے حوالے سے بتایا گیا تھا جنھیں ان کی مخصوص بو سے پہچانا جا سکتا ہے مثلا ذیابیطس کے مریض کی سانسوں کی بو نیل پالش کے ریمور کی مہک سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔

اسی طرح جگر کے امراض میں مبتلا لوگوں کے پاس سے تازہ مچھلی جیسی باس محسوس ہو سکتی ہے یا پھر بلیڈر انفیکشن میں پیشاب کی بو امونیا یا ونڈو کلینر کی طرح تیز ہوتی ہے۔

ٹائیفائڈ کے مریض کی جلد سے تندوری بریڈ جیسی مہک اٹھتی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ حالیہ تجربہ میں ایسے شواہد ملے ہیں کہ انسان جب بیمار ہوتا ہے تو اس کے پاس سے ناخوشگوار بو آتی ہے۔

اسی حوالے سے ڈاکٹرجارج پریٹے نے 'بی بی سی' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک نارمل شخص کےجسم سے خارج ہونے والے کیمیائی مادوں کی نسبت کینسر زدہ جسم سے خارج ہونے والے کیمیائی مادے مختلف ہوتے ہیں اسی لیے ان کی مہک بھی مختلف ہوتی ہے اگرچہ اس ہلکی مہک کو بہت سے لوگ نہیں سونگھ سکتے ہیں لیکن تربیت یافتہ کتے مختلف اقسام کے کینسر اور ذیا بیطس کو سونگھ کر شناخت کر سکتے ہیں کیونکہ ،کتوں کی سونگھنے کی حس تیز ہوتی ہے اس لیے انھیں بیماریوں کی ابتدائی تشخیص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کتے کے علاوہ سونگھنے کی تیز حس مکھیوں میں بھی پائی جاتی ہے جنھیں کینسر کی تشخیص کے لیے تجربات میں استعمال کیا گیا ہے جبکہ افریقہ میں موزمبیق اور تنزانیہ کے بعض خیراتی اداروں کی جانب سے ٹی بی کے مریضوں کی ابتدائی تشخیص کے لیے چوہوں سے بھی مدد لی جارہی ہے۔

ڈاکٹرپریٹے ان دنوں ایک ڈاگ سینٹر میں رحم کے سرطان کی تشخیص میں مدد حاصل کرنے کے لیے کتوں کو تربیت دے رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کتوں نے مرض کی تشخیص نوے فیصد درست کی ہے انھیں امید ہے کہ وہ جلد ہی کینسر کی مخصوص کیمیائی مادے کو بھی شناخت کرسکیں گے اور کتوں کی حس کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک' الیکٹرونک ناک 'یا 'ای ناک ' تیار کرلی جائے گی ۔

انھوں نے کہا کہ بہت جلد ایک ناخن جتنی چھوٹی سی چپ میں کتے کی طاقتور سونگھنے کی حس موجود ہوگی یہ ایک ڈیوائس ہوگی جسے اسپتالوں میں استعمال کیا جائے گا۔

نیدر لینڈ میں واقع' یونیورسٹی آف ماسٹریچ میڈیکل سینٹر' میں' بریتھ لنک 'نامی ڈیوائس کا چھاتی کے کینسر کی تشخیص کے لیے کامیاب تجربہ کیا گیا ہے اس مشین سے 10 منٹ میں حاصل ہونے والا نتیجہ مریضوں کو ایکس رے اور میموگرام کی تکلیف سے نجات دلانے میں مددگار ثابت ہوگا۔

ماہرین نے بتایا کہ دو سال کے مختصر عرصے میں ڈاکٹروں کے استعمال کے لیے یہ مشین دستیاب ہو گی علاوہ ازیں اوول اسٹون نامی کمپنی کی جانب سے بھی اسی مدت میں باول کینسر کی تشخیص کے لیے سونگھنے والی مشین اسپتالوں کو فراہم کر دی جائے گی ۔
XS
SM
MD
LG