رسائی کے لنکس

درجۂ حرارت میں اضافہ: 'دنیا کی غفلت ختم نہ ہوئی تو نئے مسائل جنم لیں گے'


ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث عالمی درجۂ حرارت میں ہر سال تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور دنیا گزشتہ 30 برسوں میں مختلف شواہد اکھٹے کرنے کے باوجود عالمی درجۂ حرارت کو کم کرنے کی کوششوں میں ناکام رہی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق ان خیالات کا اظہار بائیو سائنس نامی ایک جریدے میں شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ دنیا کے 11 ہزار سے زائد سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہی صورتِ حال برقرار رہی تو آنے والے وقتوں میں دنیا کو بڑھتے درجۂ حرارت کے سبب پیش آنے والی مشکلات کے ساتھ کچھ ایسے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے جو ابھی تک خاموش شمار ہوتے ہیں۔

سائنس دانوں کے مطابق یہ مسائل ان دیکھے اور بے ہنگم تو ہیں لیکن بہت تیزی سے دنیا میں سر اٹھا رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی سے زمین کو آب و ہوا کے حوالے سے ہنگامی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو روکنا ہے تو 2030 تک زمین کی سطح کو گرم کرنے والی گیسوں کے اخراج میں 50 فی صد تک کمی لانی ہوگی۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال فضا میں کاربن کی آلودگی غیر معمولی حد تک نوٹ کی گئی تھی جو 41 ارب ٹن سے زائد اور 2017 کے مقابلے میں دو فی صد زیادہ تھی۔ یہ ایک سال کی مدت میں ہونے والا ریکارڈ اضافہ ہے۔

سائنس دانوں کے مطابق گزشتہ ایک صدی کے دوران عالمی درجۂ حرارت میں ایک ڈگری سیلسیس کا اضافہ ہوا ہے جو اس صدی کے آخر تک مزید دو یا تین ڈگری تک بڑھ سکتا ہے جس سے مہلک ہیٹ ویوز، سیلاب اور طوفانوں کی راہ ہموار ہوگی۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جیمز میک کارٹی کا کہنا ہے کہ گیسوں کے اخراج میں جلد سے جلد کمی نہ لائی گئی تو یہ دنیا میں ماحولیاتی اور معاشی تباہی لانے کا سبب بن سکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق چین، امریکہ، بھارت اور روس یہ چار ایسے ممالک ہیں جہاں گزشتہ سال باقی دنیا کے مقابلے میں بجلی کی پیداوار اور صنعتی یونٹس سے نکلنے والے دھویں سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہوا۔ یہاں سال بھر جنگلات کی کٹائی بھی جاری رہی جس کے سبب گرین ہاؤس گیسز کا اخراج بڑھ گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ چاروں ممالک عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے سب سے زیادہ ذمے دار ہیں۔

چین نے کہا ہے کہ وہ 2030 تک گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں کمی لائے گا۔ جس پر سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چونکہ چین کی معیشت بہت بڑی اور اس کی شرح نمو حیرت انگیز ہے اس لیے چین کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی کا وعدہ پورا کرسکتا ہے۔

بھارت کا دوبارہ استعمال کے قابل توانائی اور کوئلے پر انحصار زیادہ ہے جس کی وجہ سے وہاں ہر سال گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

بھارت میں گیسوں کے اخراج کا تناسب دنیا کے کل اخراج کا سات فی صد ہے جب کہ روس سے 4 اعشاریہ 6 فی صد گیسز فضا میں پہنچتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں کی جانب سے کاربن گیسوں کا اخراج نہ ہونے کے برابر رہا ہے۔ لیکن مستقبل میں ان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جلد اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔

پیرس معاہدے کے تحت ترقی پذیر ملکوں کو ماحولیاتی تبدیلیاں روکنے اور اس کے اثرات سے نمٹنے میں مدد سینے کے لیے اگلے سال سے سالانہ 100 ارب ڈالر کی امداد بھی دی جائے گی۔

XS
SM
MD
LG