رسائی کے لنکس

کیا بھارت میں تہواروں کا سیزن ایک بار پھر ’کرونا سپر اسپریڈر‘ ثابت ہو سکتا ہے؟


ہندوؤں کے تہوار درگا پوجا، دُسہرہ اور نوراتری 15 اکتوبر کو ختم ہو گئے ہیں البتہ آنے والے دنوں میں دیوالی، کارتک پورنما، چھٹھ پوجا، مسلمانوں کا تہوار عید میلاد النبی، سکھوں کا تہوار گرو جیئنتی، مسیحیوں کا تہوار کرسمس اور مزید کئی تہوار آنے والے ہیں۔ (فائل فوٹو)
ہندوؤں کے تہوار درگا پوجا، دُسہرہ اور نوراتری 15 اکتوبر کو ختم ہو گئے ہیں البتہ آنے والے دنوں میں دیوالی، کارتک پورنما، چھٹھ پوجا، مسلمانوں کا تہوار عید میلاد النبی، سکھوں کا تہوار گرو جیئنتی، مسیحیوں کا تہوار کرسمس اور مزید کئی تہوار آنے والے ہیں۔ (فائل فوٹو)

بھارت میں اس وقت تہواروں کا موسم چل رہا ہے جو دسمبر کے اواخر تک رہے گا۔ ماہرین اس دوران کرونا کے پھیلاؤ کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔

رواں برس مارچ میں ریاست اتراکھنڈ کے ہری دوار میں کمبھ میلے کے دوران ہونے والی ہندو عقیدت مندوں کی بھیڑ کی وجہ سے بڑے پیمانے پر لوگ کرونا وائرس کا شکار ہوئے تھے اور کمبھ میلے کو ’کرونا سپر اسپریڈر‘ کہا گیا تھا۔ اس کے بعد ہی ملک میں کرونا کی دوسری لہر آئی تھی جو انتہائی مہلک ثابت ہوئی تھی۔

اس بار بھی حکومت اور ماہرین اس اندیشے میں مبتلا ہیں کہ تہواروں کا موجودہ موسم بھی کہیں کرونا سپر اسپریڈر نہ بن جائے۔

ہندوؤں کے تہوار درگا پوجا، دُسہرہ اور نوراتری 15 اکتوبر کو ختم ہو گئے ہیں البتہ آنے والے دنوں میں دیوالی، کارتک پورنما، چھٹھ پوجا، مسلمانوں کا تہوار عید میلاد النبی، سکھوں کا تہوار گرو جیئنتی، مسیحیوں کا تہوار کرسمس اور مزید کئی تہوار آنے والے ہیں۔

بھارت میں ’کووڈ ٹاسک فورس‘ کے چیئرمین ڈاکٹر وی کے پال نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں بالغ آبادی کی تین چوتھائی کو ویکسین کی کم از کم ایک خوراک دی جا چکی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سب کو جلد از جلد ویکسین لگانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ اس موقعے پر ہمیں تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ویکسین تنہا کافی نہیں ہے۔

’اگلے تین ماہ نازک ہیں‘

ڈاکٹر وی کے پال نے یہ بھی کہا کہ ہمیں ہجوم لگانے کے بجائے گھروں میں تہوار منانا چاہیئں۔ لوگوں کو چاہیے کہ کرونا سے بچاؤ کی ہدایات کی پابندی کریں۔ ہمیں ایسی صورتِ حال پیدا ہونے نہیں دینا چاہیے کہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں۔

ان کے بقول اگلے تین ماہ نازک ہیں۔ اس دوران ویکسین اور نگرانی دونوں کی اشد ضرورت ہے۔

بین الاقوامی سائنس دانوں کی ایک ٹیم کے مطالعے کے مطابق دہلی میں اس سال کرونا کی جو لہر آئی تھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ کرونا سے متاثر ہوئے تھے ان کو ڈیلٹا ویریئنٹ کسی دوسرے ویریئنٹ کے توسط سے بھی متاثر کر سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ’ہرڈ امیونٹی‘ کا حصول ایک چیلنج ہے۔ یہ رپورٹ جمعرات کو ’سائنس جرنل‘ میں شائع ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ آبادی کے 70 فی صد حصے کو ویکسین لگنا یا ان میں وبا کے خلاف مدافعت ہونا ہرڈ امیونٹی کہلاتا ہے۔

مرکزی وزیرِ صحت من سکھ منڈاویا نے نو اکتوبر کو 19 ریاستی حکومتوں کے اہل کاروں کے ساتھ ایک اجلاس کیا تھا اور تہواروں کے موسم میں وبا کو پھیلنے سے روکنے کے اقدامات پر تبادلۂ خیال کیا۔

مرکزی سیکریٹری صحت راجیش بھوشن نے گزشتہ دنوں تمام ریاستی حکومتوں کو خط ارسال کرکے کہا کہ ’اس نازک دور‘ میں سب کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

عالمی مالیاتی فنڈ کی چیف اکانومسٹ گیتا گوپی ناتھ نے بھارت کے نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 50 فی صد ویکسی نیشن کی وجہ سے بھارتی عوام میں اعتماد پیدا ہوا ہے لیکن تیسری لہر کا خطرہ اب بھی برقرار ہے۔

تہوار منانے کی مشروط اجازت

اس وقت دارالحکومت نئی دہلی میں کرونا کی صورتِ حال قابو میں ہے۔ کرونا کے مثبت کیسز کی شرح صرف پانچ فی صد ہے۔ ان حالات میں ڈسٹرکٹ ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی ایم اے) نے تہوار منانے کی مشروط اجازت دی ہے۔

بند مقامات پر نصف گنجائش کے ساتھ زیادہ سے زیادہ 200 افراد کی تقریب کی اجازت دی گئی ہے۔ تقریب کے لیے بند مقامات کے داخلی اور خارجی راستے الگ الگ رکھنے کی شرط بھی عائد کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ ماسک کی پابندی، ساتھ میں ہینڈ سینیٹائزر رکھنے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی بھی ہدایت دی گئی ہے۔

درگا پوجا اور دُسہرہ میں درگا دیوی کی مورتیوں اور راون کے پتلوں کے سائز بھی کافی چھوٹے کر دیے گئے۔

پہلے راون کے پتلے 50 سے 100 فٹ اونچے بنتے تھے لیکن اس بار زیادہ سے زیادہ 30 فٹ اونچائی کی اجازت دی گئی۔ پتلوں میں پٹاخے نصب کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

تیسری لہر کا امکان؟

صفدر جنگ اسپتال نئی دہلی میں کمیونٹی میڈیسن شعبے کے سربراہ ڈاکٹر جگل کشور نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گزشتہ سال ڈیلٹا ویریئنٹ کی وجہ سے ملک میں کرونا کی دوسری لہر آئی تھی۔ لیکن تیسری لہر آنے کے امکانات کم ہیں۔

ان کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ تیسرے سیرو سروے کے مطابق عوام میں بڑی مقدار میں اینٹی باڈیز بنی ہیں۔ کہیں کہیں یہ مقدار، خاص طور پر ڈاکٹرز اور طبی عملے میں،80 فی صد تک ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دوسری لہر میں جو لوگ کرونا سے متاثر ہوئے تھے انھیں دوبارہ وبا سے متاثر ہونے کا امکان کم ہے۔ البتہ اگر کوئی نیا ویریئنٹ آگیا تو تیسری لہر آسکتی ہے۔ لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جن کو ایک ویریئنٹ سے انفیکشن ہوا تھا ان کو دوسرے ویریئنٹ سے انفیکشن نہیں ہوا ہے۔

کرونا ویکسی نیشن مہم میں ٹیکنالوجی کا استعمال
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:40 0:00

ان کے مطابق جب ویکسین لگوانے والوں کا مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان میں سے بھی 20 سے 25 فی صد کرونا سے متاثر ہوئے ہیں۔

ان کے خیال میں یہ ضروری نہیں کہ ویکسین لگوانے والے وبا سے متاثر نہیں ہوں گے۔ البتہ ایسے لوگوں میں شرح اموات کم ہے۔

ان کے بقول کرونا ویکسین نہ لگوانے والے افراد کے وبا سے متاثر ہونے کا امکان بھی زیادہ ہے۔ لیکن بہرحال اگر کرونا پھیلتا بھی ہے تو کوئی بہت بڑی لہر نہیں آئے گی۔

ویکسین کی ایک ارب خوراکوں کا ہدف

انھوں نے بتایا کہ ملک کی آبادی کے 48 فی صد لوگوں کو ویکسین کی پہلی خوراک دی جا چکی ہے۔ 15 سے 20 فی صد کو دوسری خوراک بھی لگ چکی ہے۔ لوگ بڑی تعداد میں مراکز پر پہنچ کر ویکسین لگوا رہے ہیں۔

ان کے بقول اب عالمی ادارہٴ صحت نے بچوں کو بھی ویکسین لگانے کی اجازت دے دی ہے۔ لہٰذا جلد ہی بچوں کو بھی ویکسین دینا شروع کر دی جائے گی۔ بہت سے لوگ ویکسین کی وجہ سے محفوظ ہو چکے ہیں۔

حکومت کے اہل کاروں کے مطابق ویکسین لگوانے کے اہل افراد میں 73 فی صد کو ویکسین کی پہلی خوراک دی جا چکی ہے۔ جب کہ 29 فی صد کو دونوں خوراکیں دی جا چکی ہیں۔

رپورٹس کے مطابق دوسری لہر سے پہلے ویکسین سے متعلق عوام میں جھجک تھی لیکن اب شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں لوگ بڑی تعداد میں ویکسین لگوا رہے ہیں۔ کہیں کہیں بھیڑ زیادہ ہو جانے کی وجہ سے بد انتظامی کی بھی خبریں موصول ہوئی ہیں۔

حکومت کے اہلکاروں کے مطابق اس ماہ کے اواخر تک عوام کو کرونا ویکسین کی ایک ارب خوراکیں دی جا چکی ہوں گی۔

تہواروں کا وائرس کے پھیلاؤ سے تعلق

حکومت کی جانب سے احتیاطی تدابیر پر سختی کے باوجود تہواروں کے موسم میں کرونا کے پھیلاؤ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

ماہرین کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ عوام نے پہلی اور دوسری لہر سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اگر سیکھا ہوتا تو کم از کم کرونا سے بچاؤ کی ہدایات کی سختی سے پابندی کی جاتی۔

بھارت میں کرونا کی صورتِ حال بہتر، بلیک فنگس کا خطرہ برقرار
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:19 0:00

ایک سینئر تجزیہ کار آلوک موہن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دسہرہ اور درگا پوجا کے موقعے پر عوام نے بہت زیادہ احتیاط نہیں برتی جس کی وجہ سے آنے والے دنوں میں اگر کرونا کے کیسز میں اضافہ ہو جائے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔

انھوں نے بتایا کہ وہ گزشتہ دنوں دسہرہ اور درگا پوجا کے پنڈالوں کا جائزہ لینے کے لیے ملک کی کئی ریاستوں اور بالخصوص مغربی بنگال اور اڑیسہ کا دورہ کر چکے ہیں جہاں انھوں نے دیکھا کہ اس سال ان تہواروں میں لوگوں میں بہت زیادہ جوش و خروش نہیں ہے۔

اس سال کے تہوار پہلے سے مختلف

آلوک موہن کے مطابق تہواروں میں لوگ پہلے کے مقابلے میں کم تعداد میں شریک ہوئے لیکن جو لوگ شریک ہوئے ان میں سے کم ہی لوگ کرونا وائرس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر پر عمل کر رہے ہیں۔ بیش تر افراد کو بغیر ماسک کے دیکھا گیا۔

ان کے مطابق اگر لوگوں نے اسی طرح لاپروائی برتی تو تیسری لہر کو کوئی نہیں روک پائے گا اور وہ کہیں زیادہ خطرناک ہوگی۔

ایک سماجی کارکن صلاح الدین کا کہنا ہے کہ حکومت نے ہدایات تو جاری کی ہیں لیکن ان پر سختی سے عمل نہیں ہو رہا ہے جس سے کرونا کے پھیلاؤ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

وہ اس بارے میں دہلی کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دسہرہ اور درگا پوجا کے موقعے پر حکومت کی جانب سے بہت سخت احتیاطی تدابیر جاری ہوئی تھیں۔ البتہ عوامی سطح پر ان کی اس طرح پابندی نہیں کی گئی جیسی ہونی چاہیے تھی۔

پتلا سازی کے کاروبار پر منفی اثر

تہواروں کے موقع پر پتلے بنانے کے کاموں میں مصروف افراد کا کہنا ہے کہ کرونا کے پیشِ نظر حکومت کی جانب سے کی جانے والی سختی کی وجہ سے ان لوگوں کے کاروبار پر بہت منفی اثر پڑا ہے۔

راجوری گارڈن میں دہائیوں سے راون کا پتلا بنانے والے ایک شخص راجہ رام نے بعض میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کرونا سے پہلے ان لوگوں کا کام کئی ماہ پہلے ہی شروع ہو جاتا تھا اور انھیں آرام کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ لیکن اس سال دھندہ بہت مندہ ہے اور ان لوگوں کی آمدنی پر اثر پڑا ہے۔

ان کے مطابق پہلے ان لوگوں کے بنائے ہوئے پتلے بھارت کی دوسری ریاستوں کے علاوہ بیرون ملک بھی جاتے تھے لیکن اس سال بہت کم آرڈر ملے۔

انھوں نے کہا کہ کرونا کی وجہ سے اس سال کے تہوار پہلے کے مقابلے میں بہت پھیکے جا رہے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG