رسائی کے لنکس

روس کے خلاف قراردادوں پر ووٹنگ میں بھارت نے حصہ نہیں لیا


اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کے خلاف قرار دار پر ووٹنگ میں بھارت غیر حاضر رہا۔ فائل
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کے خلاف قرار دار پر ووٹنگ میں بھارت غیر حاضر رہا۔ فائل

بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کرنے کے لیے پیش کی جانے والی قرارداد پر جمعے کو ہونے والی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اس نے تین روز بعد سلامتی کونسل میں اس پروسیجرل ووٹنگ میں بھی حصہ نہیں لیا جس کا مقصد اس معاملے پر اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس کا انعقاد کرنا تھا۔

پندرہ رکنی سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی مذمتی قرارداد روس کے ویٹو کی وجہ سے منظور نہیں ہو سکی۔

بھارت نے ووٹنگ سے اپنی غیر حاضری کے سلسلے میں کہا کہ اختلافات کو ختم کرنے کا واحد راستہ بات چیت ہے۔ اس نے مبینہ طور پر سفارت کاری کا راستہ ترک کر دینے پر اظہار افسوس کیا۔

اقوام متحدہ میں بھار ت کے مستقل مندوب ٹی ایس تری مورتی نے ایک بیان میں کہا کہ بھارت کو یوکرین کی موجودہ صورت حال پر تشویش ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ تمام اراکین کو عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کا احترام کرنا چاہیے جو آگے بڑھنے کا تعمیری راستہ فراہم کرتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت اپنے دیرینہ اور متوازن موقف پر قائم ہے۔

ٹی ایس تری مورتی نے کہا کہ بھارت فریقوں کے ساتھ رابطے میں ہے اور ان سے اپیل کرتا ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئیں۔

رپورٹس کے مطابق بھارت نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کا اجلاس بلانے کے سلسلے میں ہونے والی پروسیجرل ووٹنگ سے غیر حاضر رہنے کے موقع پر بیلا روس کی سرحد پر روس سے مذاکرات کرنے کے یوکرین کے فیصلے کا خیرمقدم کیا۔

پندرہ رکنی سلامتی کونسل میں مذکورہ قرارداد کے حق میں گیارہ اراکین نے ووٹ دیے جب کہ بھارت، چین اور متحدہ عرب امارات غیر حاضر رہے۔ روس نے قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔ لیکن چونکہ اس میں کسی کو ویٹو پاور حاصل نہیں ہے ا س لیے قرارداد منظور کر لی گئی اور منگل کو اجلاس منعقد ہوگا۔

خیال رہے کہ ایسا اجلاس شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ 1950 کے بعد اپنی نوعیت کا یہ گیارہواں اجلاس ہوگا۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور روس کے صدر ولادی میرسے پوٹن۔ بھارت روس سے اپنے تعلقات بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور روس کے صدر ولادی میرسے پوٹن۔ بھارت روس سے اپنے تعلقات بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یوکرین پر روس کے حملے کے بعد بھارت بہت محتاط انداز میں قدم اٹھا رہا ہے۔ وہ نہ تو روس سے اپنے رشتے خراب کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی امریکہ اور مغربی ممالک سے۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ بھارت کے اس موقف سے بھارت امریکہ رشتے متاثر ہوں گے یا نہیں۔


’بھارت پر بہت دباؤ ہے‘


بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار پشپ رنجن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس وقت بھارت بہت دباؤ میں ہے۔ روس چاہتا ہے کہ بھارت کھل کر اس کی حمایت کرے اور امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت روس کی مذمت کرے اور اس کے خلاف موقف اختیار کرے۔

ان کے مطابق بھارتی سفارت کار عجلت میں کوئی غلطی کرنا نہیں چاہتے۔ وہ وزارت خارجہ کے موقف کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔ بھارت کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہتا جس سے روس کے ساتھ اس کے رشتوں پر کوئی اثر پڑے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے امریکہ سے بھی اپنے تعلق کا خیال ہے۔

انھوں نے کہا کہ بھارت کو یورپی یونین کو بھی دیکھنا ہے۔ لہٰذا وہ اپنے کسی بھی قدم سے یہ تاثر دینا نہیں چاہتا کہ وہ کسی ایک فریق کی جانب جھک رہا ہے۔

بھارت یوکرین سے اپنے شہریوں کو نکالنے کی کوشش کر رہا ہے

ان کے مطابق اس وقت بھارت کی توجہ یوکرین میں پھنسے اپنے شہریوں اور طلبہ کو بحفاظت واپس لانے پر ہے۔ کچھ ملکوں نے اپنے شہریوں کو بر وقت واپس بلا لیا تھا۔ لیکن بھارت بعض وجوہ کی بنا پر ایسا نہیں کر سکا۔ اس وقت بھارتی شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد وہاں پھنسی ہوئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ میں بھارت کے نمائندے ٹی ایس تری مورتی نے اس بارے میں کئی بار بیانات دیے اور بھارتی شہریوں کو نکالنے میں اقوام متحدہ اور دوسری ایجنسیوں سے تعاون کی اپیل کی۔ لیکن بھارت کی اس اپیل کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا ہے جو کہ بہت افسوسناک ہے۔

ان کے بقول بھارت کی اس اپیل پر روس کے صدر ولادی میر پوٹن کو توجہ دینی چاہیے تھی اور وائٹ ہاوس کو بھی۔

پشپ رنجن کے مطابق بھارت کے لیے یہ وقت بہت نازک ہے۔ بھارت کی قومی سلامتی کا معاملہ بھی ہے۔ اس نے امریکہ کی مخالفت اور پابندیوں کے خطرے کے باوجود روس سے ایس ۔ 400 میز ائل نظام خریدا ہے اور اس کی سپلائی بھی شروع ہو چکی ہے۔ بھار ت کوئی بھی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہتا کہ اس نظام کی سپلائی پر اثر پڑے۔ اسے چین کا مقابلہ کرنے کے لیے اس نظام کی بہت ضرورت ہے۔

روس، یوکرین تنازع کیا رُخ اختیار کر سکتا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:43 0:00

ان کے مطابق امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے ایس جے شنکر کو فون کرکے روس کے حملے کی مذمت میں ایک ٹھوس موقف اختیار کرنے کی اپیل کی تھی۔ اس کے باوجود بھارت نے متوازن موقف اختیار کیا۔ یہ اس کے اپنے قومی مفاد اور قومی سیکیورٹی کا بھی معاملہ ہے۔ اگر اس نے غلط سفارتی قدم اٹھایا تو اس سے بھارت کو نقصان ہو سکتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ بھارت کے اس موقف کا امریکہ کے ساتھ اس کے رشتوں پر کیا کچھ اثر پڑ سکتا ہے اس بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ لیکن جو اب تک کے حالات رہے ہیں ان کے پیش نظر بھارت امریکہ رشتوں پر کوئی منفی اثر پڑتا نظر نہیں آرہا۔

ریپبلکن سینیٹر نے بھارت کے موقف کی مخالفت کی

رپورٹس کے مطابق امریکہ کے ریپبلکن سینیٹر جان کورنی نے ووٹنگ سے بھارت کے غیر حاضر رہنے پر اظہار افسوس کیا اور کہا کہ بھارت عوامی طور پر ماسکو کی مذمت کرنے سے گریز کر رہا ہے اور روس کے ساتھ اپنے اسٹریٹجک تعلق کو متوازن رکھنے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔

اس سے قبل امریکی کانگریس کے مزید دو اراکین نے بھی بھارت کے اس موقف کی مخالفت کی۔

رپورٹ کے مطابق بھارتی نژاد امریکی کانگریس مین آر کھنہ نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ 1962 میں صدر کینیڈی چین کے حملے کے خلاف بھارت کے ساتھ کھڑے تھے۔ بقول ان کے اِس وقت بھی چین کے توسیع پسندانہ منصوبوں کا مخالف روس نہیں بلکہ امریکہ ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ اس وقت بھارت کو پوٹن کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔ ووٹنگ سے اس کی غیر حاضری ناقابل قبول ہے۔

بھارت کی حزب اختلاف کا رد عمل

بھارت کے بعض اپوزیشن رہنماؤں نے بھی ووٹنگ سے غیر حاضر رہنے پر بھارتی حکومت کی مذمت کی ہے۔

کانگریس کے سینئر رہنما منیش تیواری نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ اگر بھارت کا کوئی اچھا دوست غلطی کرتا ہے تو اسے مناسب نقطہ نگاہ اختیار کرنا چاہیے۔

ان کے مطابق یہ ایسا وقت ہے کہ بھارت مناسب موقف اختیار کرے نہ کہ الگ تھلگ کھڑا ہو جائے۔

ان کے بقول کیا ہی اچھا ہوتا کہ بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یوکرین کے عوام کے ساتھ جو کہ ایک غیر مناسب حملے کا سامنا کر رہے ہیں، اظہار یکجہتی کے لیے ووٹنگ کرتا۔

یوکرین میں بھارتی شہریوں اور طلبہ کی ایک بڑی تعداد پھنسی ہوئی ہے جس پر بھارت میں بے چینی پائی جاتی ہے۔
یوکرین میں بھارتی شہریوں اور طلبہ کی ایک بڑی تعداد پھنسی ہوئی ہے جس پر بھارت میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

شیو سینا کی ترجمان اور رکن پارلیمنٹ پریانکا چترویدی نے بھی بھارت کے رویے کی مذمت کی اور کہا کہ جنگ کے خلاف ووٹ دینے سے بچنے سے آپ کے تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے بلکہ اس کے برعکس آپ کے اصول کمزور ہوتے ہیں۔

بھارتی شہریوں کی واپسی بڑا مسئلہ

دریں اثنا بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پیر کے روز نئی دہلی میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت کی، جس میں یوکرین پر روسی حملے کے بعد کی صورت حال اور بالخصوص وہاں پھنسے ہوئے بھارتی شہریوں اور طلبہ کو بحفاظت نکالنے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اجلاس میں چار وزرا ہردیپ سنگھ پُری، وی کے سنگھ، کرن رجیجو اور جوترادتیہ سندھیا کو بھارتی شہریوں کی بحفاظت واپسی کی کارروائی کی نگرانی کے لیے پولینڈ اور رومامنیہ بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وہ جلد ہی روانہ ہو رہے ہیں۔

اجلاس میں وزیر خارجہ ایس جے شنکر، قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول، ٹیکسٹائل وزیر پیوش گوئل اور خارجہ سکریٹری ہرش شرنگلا نے بھی شرکت کی۔

کانگریس کے سینئر رہنما راہول گاندھی نے یوکرین میں پھنسے ہوئے بعض طلبہ کی ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے حکومت سے کہا کہ وہ یوکرین میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے کے لیے بنائے گئے منصوبے کے بارے میں بتائے۔

انھوں نے اور کانگریس پارٹی نے یوکرین میں پھنسے ہوئے بھارتی شہریوں کو بروقت واپس نہ بلانے پر حکومت کی مذمت کی ہے۔

بھارت کے موقف پر یوکرین میں شدید ردعمل

رپورٹس کے مطابق ایک طرف جہاں بھارت کے خارجہ سکریٹری نے یوکرین کے سفیر سے گفتگو میں بھارتی شہریوں کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے وہیں دوسری طرف وہاں پھنسے ہوئے طلبہ کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل میں بھارت کی جانب سے ووٹنگ سے غیر حاضر رہنے کی وجہ سے انھیں مشکل حالات کا سامنا ہے۔

اخبار ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق میڈیکل کے متعدد طالب علموں نے الزام لگایا ہے کہ یوکرین اور پولینڈ کی سرحد پر انھیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان کی حالت یرغمالوں جیسی ہو گئی ہے۔ منجمد کر دینے والی سردی میں انھیں کھانے، پینے اور محفوظ راستہ سے محروم کر دیا گیا ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ سلامتی کونسل میں روسی حملے کے خلاف پیش کی جانے والی قرارداد پر ووٹنگ کے دوران بھارت کے غیر حاضر رہنے کی وجہ سے یوکرین کے سرحدی محافظ ان کے ساتھ بدسلوکی اور بد زبانی کر رہے ہیں۔

انھوں نے ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں انھیں وہاں سے منتشر کرنے کے لیے وارننگ کے طور پر فائرنگ کی گئی تھی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG