رسائی کے لنکس

جی 20 اجلاس، یوکرین روس جنگ ایجنڈے میں سرفہرست ہو گی


امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن 6 جولائی 2022 کو میری لینڈ میں جوائنٹ بیس اینڈریوز پہنچے، جہاں سے وہ انڈونیشیا اور تھائی لینڈ کے لیے روانہ ہوئے۔(فوٹو: اے ایف پی)
امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن 6 جولائی 2022 کو میری لینڈ میں جوائنٹ بیس اینڈریوز پہنچے، جہاں سے وہ انڈونیشیا اور تھائی لینڈ کے لیے روانہ ہوئے۔(فوٹو: اے ایف پی)

(واشنگٹن) امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن جب دنیا کی 20 سب سے بڑی معاشی طاقتوں یعنی جی 20 ممالک کے وزرائے خارجہ سے انڈونیشیا کےجزیرےبالی میں اس ہفتے ملاقات کریں گے، تو توقع کی جا رہی ہے کہ یوکرین پر روسی حملے کا موضوع اس کانفرنس کے ایجنڈے پر سر فہرست ہوگا۔

بلنکن، جو اس کانفرنس کے لیے بدھ کو روانہ ہوئے، وہاں اپنے چینی ہم منصب وانگ یی سے بھی ملاقات کریں گے۔

منگل کے روز امریکی معاون وزیر خارجہ ڈینیئل کرٹن برنک نے فون پر بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ اعلیٰ امریکی اور چینی سفارت کاروں کے درمیان ملاقاتوں کے ایجنڈے میں موسمیاتی تبدیلی، عالمی صحت، انسداد منشیات اور میانمار کی صورتحال پر ممکنہ تعاون شامل ہے۔ان کے مطابق امریکہ چین کے ساتھ "شدید مسابقت" کی اپنی پالیسی کو ذمہ داری کے ساتھ نبھانا چاہتا ہے، اور غیر ارادی تنازعات سے بچنے کے لیے حد بندی قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

سفارتی ذرائع کے مطابق بلنکن کی چینی وزیر خارجہ وانگ یی کے ساتھ دو طویل ملاقاتیں ہوں گی، پہلی ملاقات میں ممکنہ طور پر دوطرفہ تعلقات اور دوسرے میں علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر توجہ مرکوز رہے گی۔

جی 20 اجلاس کے بعد بلنکن بنکاک جائیں گے، جہاں میانمار، جسے برما بھی کہا جاتا ہے، کی صورتحال پر بات چیت متوقع ہے۔

ڈینیئل کرٹن برنک کا کہنا تھا کہ رسمی ملاقاتوں کے علاوہ جی 20 اور بینکاک میں سائیڈ لائنز پر ہونے والی بات چیت میں بھی برما کا موضوع نمایاں رہے گا، اور برما میں بغاوت کے بعد سے فوجی حکومت کے سفاک اقدامات،2 ہزار افراد کے قتل اور 7 لاکھ سے زیادہ کو بے گھر کیے جانے کی، امریکہ سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا رہے گا۔

اختتام ہفتہ، چینی وزیر خارجہ نے میانمار پر فوج کے قبضے کے بعد اپنا پہلا دورہ کیا۔

اگرچہ یوکرین جی 20 گروپ کا رکن نہیں ہے، تاہم یورپی یونین کا امیدوار بننے کے بعد یوکرین کے وزیر خارجہ دیمیٹرو کولیبا کو اس ہفتے کے وزارتی اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ اس اجلاس میں شرکت سے پہلے ہی، انہوں نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل کو اپنے ملک کی پوزیشن کے بارے میں مطلع کر دیا تھا۔اپنے ایک ٹوئٹ میں انکا کہنا تھا کہ ہم دونوں روس پر یورپی یونین کی پابندیوں کے7ویں پیکیج کی ضرورت پر متفق ہیں اور اس پر کام کر رہے ہیں۔

امریکی حکام کے مطابق یوکرین کے خلاف روس کی جنگ، عالمی اقتصادی عدم استحکام کا باعث بنی ہے اور واشنگٹن اس وقت تک کریملن پر دباؤ کم نہیں کرے گا جب تک روس اپنی فوجی جارحیت ختم نہیں کرتا۔

بلنکن اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کے درمیان بالی میں کوئی باضابطہ ملاقات طے نہیں ہے۔ تاہم روسی وزیر خارجہ کی جی 20 اجلاس میں موجودگی کے خلاف امریکہ احتجاجی و اک آؤٹ کے امکان کو رد نہیں کر رہا ہے۔

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف (فائل فوٹو: رائٹرز)
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف (فائل فوٹو: رائٹرز)

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے منگل کے روز کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ وہاں امریکی وزیر خارجہ ایک مکمل اور فعال شریک کی حیثیت سے موجود ہونے کے ساتھ ہی ایک اور اہم مقصد پر بھی قائم رہ سکتے ہیں، یعنی یہ حقیقت کہ روس کے ساتھ معمول کے مطابق تعلق نہیں ہو سکتا۔

امریکہ اور چین

امریکی وزیر خارجہ بلنکن کی امریکہ کے حریف سپر پاور چین کا مقابلہ کرنے کے لیے مسابقتی حکمت عملی کا اعلان کرنے کے بعد، اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ یہ پہلی بالمشافعہ ملاقات ہوگی۔

اُس موقع پر بلنکن نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ امریکہ چین سے الگ ہونے کی کوشش نہیں کر رہا اور یہ کہ دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان تعلقات لا حاصل نہیں۔

کئی مہینوں سے امریکی محکمہ خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار کہتے آئے ہیں کہ انہوں نے چین کو یوکرین کے خلاف جنگ کے لیے روس کو مادی مدد فراہم کرتے ہوئے نہیں دیکھا ، تاہم اگر چینی حکومت ایسا کرتی ہے توامریکہ نے اسے نتائج سے خبردار کر رکھا ہے۔

گزشتہ ہفتے امریکی محکمہ تجارت نے چین کی پانچ کمپنیوں کو روس کے فوجی اور دفاعی صنعتی اڈے کی مبینہ مدد کرنے پر تجارتی بلیک لسٹ میں شامل کر دیا تھا۔جس پر امریکہ میں کچھ ریپبلکن قانون سازوں نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کےیہ اقدامات کافی نہیں تھے۔

ایوان نمائندگان کی فارن افیئرز کمیٹی میں ریپبلکن نمائندے مائیکل میک کول نے29 جون کو کہا تھا کہ نتائج کے بارے میں بائیڈن انتظامیہ کا کمزور تصور ، چینی کمیونسٹ پارٹی( سی سی پی) کی روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے جنگی جرائم کے لیے جاری حمایت کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کرے گا۔ خلاف ورزی کرنے والی ان کمپنیوں پر زیادہ سخت پابندیاں عائد ہونی چاہئیں۔

روس جنگ پر منقسم جی 20

جی 20 ایونٹس میں روس کی شرکت نے گروپ کے اندر تناؤ پیدا کر دیا ہے، جس میں سات سرکردہ صنعتی معیشتوں کا گروپ جی 7، اور دیگر بڑی ترقی پذیر معیشتیں بھی شامل ہیں۔ بالخصوص جی 7 میں شامل بہت سے اراکین نے روس کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے سنگین اقتصادی پابندیوں کی حمایت کی ہے۔ تاہم چین اور بھارت نے روس کے خلاف اقوام متحدہ کی مختلف قراردادوں میں حصہ نہ لینے کے علاوہ روس کی سرعام مذمت کرنے سے بھی گریز کیا۔

یوکرین جنگ: کون سے ممالک اب بھی روس سے تیل خرید رہے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:32 0:00

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ روس کو جی 20 گروپ کا رکن نہیں رہنا چاہیے، تاہم چین، برازیل اور جنوبی افریقہ نے روس کو گروپ سے نکالنے پر اعتراض کیا۔ یہ ممالک پانچ بڑی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے رکن بھی ہیں، جنہیں برکس (برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ) کہا جاتا ہے اور وہ خود کو امریکہ کی قیادت والے ورلڈ آرڈر کے متبادل کے طور پر دیکھتے ہیں۔

جی 20کے کچھ ممبران کا کہنا ہے کہ یوکرین میں روس کی جنگ کی وجہ سے وسیع ہوتی خلیج کو ،اس سال کانفرنس کے موضوع یعنی کرونا وائرس وبا کے بعد معاشی بحالی کے موضوع پر حاوی نہیں ہونا چاہیئے۔

انڈونیشیا کا، جس کے پاس جی 20 کی موجودہ صدارت ہے، کہنا ہے کہ وہ ایک آزاد خارجہ پالیسی کو برقرار رکھتے ہوئے کسی عالمی طاقت کی طرف داری نہیں کرنا چاہتا۔روسی صدر پوٹن کو جی 20 کے سربراہی اجلاس سے خارج کرنے میں انڈونیشیا کی ہچکچاہٹ، اِسی خواہش کی عکاسی کرتی ہے کہ اُسےکسی ایک فریق کو فوقیت دینے کےحوالے سے نہ دیکھا جائے اور کووڈ 19 کے موضوع پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔

منگل کے روز امریکہ میں انڈونیشیا کے سفیر روزن پرکاسا روزلانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چونکہ دنیا وبائی امراض کے نقصان دہ اثرات سے باہر آ رہی ہے، ہمیں ایک دوسرے سے تعاون اور معاشی بحالی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔یورپ میں جنگ یقینی طور پر اس مقصد کے لیے نقصان دہ ہے۔ جی 20اہم اقتصادی مسائل پر بات کرنے اور ان سے نمٹنے میں معنی خیز کردار ادا کرنے کا فورم ہے۔

گزشتہ ہفتے انڈونیشیا کے صدر جوکو ویڈوڈو، یوکرین اور روس کا دورہ کرنے والے پہلے ایشیائی رہنما بن گئے، جس کے بعد انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر خوراک کے بحران کے بڑھتے ہوئے خدشات کے پیش نظر،صدر پوٹن نے روس اور یوکرین سے خوراک اور کھاد کی فراہمی کے لیے حفاظتی گارنٹی فراہم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیر لائن نے حال ہی میں جرمن نشریاتی ادارے ذی ڈی ایف ZDF) ) کو بتایا کہ نومبر میں جی 20 کے سربراہی اجلاس میں پوٹن کی ممکنہ موجودگی ،مغربی رہنماؤں کے لیے اجلاس کا بائیکاٹ کرنے یا پورے اجلاس کو مفلوج کرنے کی وجہ نہیں ہونی چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ جی 20 ترقی پذیر اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے بھی بہت اہم ہے ہمیں اس گروپ کو پوٹن کی وجہ سے ٹوٹنے نہیں دینا چاہیے۔

انڈونیشیا کے وزیر خارجہ کے خصوصی مشیر ، ڈیان ٹرانسایا جانی کے مطابق، اس ہفتے کے وزارتی اجلاس کے بعد کوئی سرکاری اعلامیہ جاری نہیں کیا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG