رسائی کے لنکس

شمسی توانائی میں چین کی سبقت امریکہ کے لیے حساس معاملہ کیوں؟


نیو یارک کے علاقے، مین ہیٹن میں چھتوں پر لگے سولر پینلزأفوٹو رائٹرز.
نیو یارک کے علاقے، مین ہیٹن میں چھتوں پر لگے سولر پینلزأفوٹو رائٹرز.

شائد پاکستان کے بیشتر شہروں کے رہنے والے امریکی ریاست، لاس ویگاس کے ایسے بل بورڈزدیکھ کر حیران رہ جائیں جن میں دہ اپنے کیسینوز کے علاوہ، سال میں 300 دن سے زیادہ چمکتے سورج اور دھوپ کی تشہیربھی کرتا ہے ۔ گرمی کی شدت روز بروز ان ملکوں میں عذاب کی شکل اختیار کر رہی ہے، کیونکہ اکثر جگہ تو سایۂ شجر بھی دستیاب نہیں ہے۔

لیکن وہاں رہنے والوں کے لئے اس کا نتیجہ گرمی اور بجلی کے زیادہ بھاری بل ہیں۔اس لئے مقامی لوگوں کیلئے، جیسن جیسے لوگوں کے گھروں میں شمسی پینل لگتے دیکھنا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے

وہ کہتے ہیں"ہمارے جیسے دو منزلہ گھر میں، جس میں پول بھی ہے، ،یہ بل آٹھ یا نو سو ڈالر ماہانہ ہو سکتا ہے۔" یعنی لگ بھگ دو لاکھ روپئے۔اور وہ بھی اس صورت میں جب امریکہ میں بجلی پاکستان کے مقابلے میں بہت سستی ہے۔

ترقی پذیر ممالک میں شمسی توانائی کی مقبولیت میں اضافہ
ترقی پذیر ممالک میں شمسی توانائی کی مقبولیت میں اضافہ

لاس ویگاس کی سولر کمپنی ’سول اپ‘ کے بانی فرینک ریگر، کہتے ہیں کہ شمسی توانائی کے استعمال میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ دہائی میں ان کی قیمت میں کافی کمی آئی ہے ۔ اگر امریکہ کی بات کریں تو یہاں متعدد ملکوں سے درآمد شدہ پینل استعمال ہو تے ہیں، لیکن شمسی توانائی کی عالمی صنعت میں غلبہ چین کو حاصل ہے۔

جولائی میں توانائی کی ایک بین الاقوامی ایجنسی کی رپورٹ میں بتا یا گیا ہے کہ سولر پینلز کی تیاری اور اختراعات میں چین کی پیش رفت نے مینوفیکچرنگ لاگت کو کم کر دیا ہے، اور چین سولر پینلز کی تیاری کے 80 فیصد سے زیادہ کلیدی مراحل میں کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن چین پراس طرح کے انحصار نے سپلائی چین سے متعلق خطرات پیدا کر دیے ہیں۔

مامون رشید کی کمپنی،آکسن سولر ، شمسی توانائی کے پینل تیار کرنے والی چند امریکی سولر پینل مینوفیکچررز میں سے ایک ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس یہاں امریکہ میں سپلائی چین نہیں ہے تو ہم اسے قومی سلامتی سے متعلق تشویش کے طور پر دیکھتے ہیں۔ " اگر آپ کے پاس قابل تجدید توانائی کا گرڈ ہے اور یہ شمسی توانائی سے چلتا ہے اور شمسی آلات کو نصب کیا جا رہا ہے اور آپ اسے خود فراہم کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں، تو اسے کسی بھی وقت بند کیا جا سکتا ہے۔"

اس سال، امریکہ نے چین پر کچھ قد غنیں عائد کی ہیں۔ وہاں سےآنے والی کرسٹل لائن سیلکون پر مشتمل شمسی مصنوعات پر محصولات میں اضافہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ایغوراقلیت کی جبری مشقت کی روک تھام کا ایکٹ، اورچین کے سنکیانگ کے علاقے سے شمسی توانائی کے اجزاء سمیت مصنوعات پر پابندی اس میں شامل ہیں۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس پر اپنی حکومت کے ردعمل میں، امریکہ پرحقائق اور سچائی کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کر تے ہوئے کہا کی وہ معمول کے اقتصادی اور تجارتی تعاون کو سیاسی رنگ دیتا ہے اور صنعت ، سپلائی چین اور ڈویژن آف لیبر میں مصنوعی مداخلت کرتا ہے، بقول انکے"امریکہ محض چینی کمپنیوں کو دبانا چاہتا ہے۔"

چینی سفارت خانے نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ امریکہ کواس قانون کے نفاذ کو روکنے کی ضرورت ہے۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے قابل تجدید توانائی کے لئے ترغیبات بھی دی جا رہی ہیں۔افراط زر میں کمی کے نئے منظور شدہ قانون میں مینوفیکچررز اور صارفین کے لیے ٹیکس کریڈٹس شامل ہیں تاکہ امریکہ میں شمسی توانائی کی صنعت کی ترقی کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔

تاہم مامون رشید کو یقین نہیں ہے کہ ان اقدامات سے امریکی صنعت کو خاطر خواہ بڑھاوا مل سکے گا۔" آپ چین کے ساتھ معاملہ کر رہے ہیں۔ یہ کوئی آذاد منڈی کی معیشت نہیں ہے۔ لہذا یہ کافی نہیں ہوگا۔ آپ کو اسے روکنے اور تجارتی قوانین کو نافذ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔"

اس سال کے شروع میں محکمہ تجارت کی تحقیقات شروع ہوئی تھیں،جو اس بارے میں تھیں کہ آیا جنوب مشرقی ایشیا کے چار ملکوں سے امریکہ آنے والے کچھ شمسی پینل دراصل چین کی مصنوعات تھے ۔اور کیا یہ ملک امریکی "اینٹی ڈمپنگ ٹیرف"، یعنی بھر مار کو روکنے والے محصولات کو چکما دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ امریکہ کے بہت سے شمسی منصوبے سابق محصولات کے خوف کی وجہ سے رک گئے۔ اس کے ردعمل میں، بائیڈن نے ان ملکوں کے شمسی اجزاء پر دو سال کے لئےمحصولات منجمد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

محکمہ تجارت کا کہنا ہے کہ اس بارے میں نتائج کا اطلاق دو سال کی مدت کے اختتام پر کیا جائے گا۔

وائٹ ہاؤس کا ہدف یہ ہے کہ سن 2024 تک ملک کے اندر سولر مینوفیکچرنگ کو تین گنا کر دیا جائے۔

XS
SM
MD
LG