رسائی کے لنکس

اڈانی گروپ پر فراڈ کا الزام: بھارت میں ہلچل، کمپنی کو 48 ارب ڈالرز کا نقصان


ایک امریکی کمپنی کی جانب سے بھارت کے بزنس ٹائیکون اور کھرب پتی تاجر گوتم اڈانی کی کمپنی پر دھوکہ دہی اور فراڈ کے الزامات کے بعد چند روز میں کمپنی کے حصص میں 48 ارب ڈالرز کی کمی ہو گئی ہے۔

امریکہ کی ایک شارٹ سیلر کمپنی ’ہنڈنبرگ ریسرچ‘ کی رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ اڈانی گروپ کئی عشروں سے اسٹاک ہیرا پھیری اور اکاؤنٹ فراڈ میں ملوث ہیں۔ اس رپورٹ کے بعد اڈانی انٹرپرائزز کے حصص میں بھاری گراوٹ آئی جس کے نتیجے میں اسے 48 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اڈانی گروپ کی سات لسٹڈ کمپنیوں کے شیئرز میں گرواٹ آئی ہے۔ ان میں اڈانی فرموں کے امریکی بانڈز بھی شامل ہیں۔ اڈانی گروپ نے اس رپورٹ کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔

ہنڈنبرگ ریسرچ نے 24 جنوری کو اپنی رپورٹ جاری کی تھی جس میں اڈانی خاندان کے زیر کنٹرول ان آف شور شیل کمپنیوں کی فہرست دی گئی ہے جو رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر کیریبین ملکوں، ماریشس اور متحدہ ارب امارات سے سرگرم ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ کمپنیاں کرپشن، منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری میں ملوث ہیں۔

اڈانی گروپ کے حصص میں دو دنوں سے مسلسل گراوٹ کی وجہ سے ممبئی اسٹاک ایکسچینج میں جمعے کو 874 پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی۔

گوتم ایڈانی کو وزیرِ اعظم نریندری مودی کے قریب سمجھا جاتا ہے اور ان کی کمپنی ایڈانی گروپ کا شمار نہ صرف بھارت بلکہ ایشیا کی بڑی کارپوریٹ کمپنیوں میں ہوتا ہے اور یہاں دیگر سرمایہ کاروں نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

اڈانی گروپ کے تحت اڈانی انٹر پرائزز، اڈانی پاور اور اڈانی پورٹس اینڈ لاجسٹکس، امبوجا سیمنٹ سمیت دیگر کئی کمپنیاں رجسٹرد ہیں، حال ہی میں اڈانی گروپ نے بھارت کے نشریاتی ادارے 'این ڈی ٹی وی' کے 65 فی صد حصص خرید لیے تھے۔

یاد رہے کہ ہنڈنبرگ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اڈانی گروپ کی سات کمپنیوں پر کافی قرض تھا جس کی وجہ سے گروپ کو کافی نقصان ہوا جس نے ان ساتوں کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں کو اصل قدر سے 85 فی صد دور دھکیل دیا۔

امریکہ کے ارب پتی سرمایہ کار بل آکمین کا کہنا ہے کہ ان کے نزدیک ہنڈنبرگ کی رپورٹ انتہائی قابل اعتماد ہے اور گہری تحقیق کے بعد تیار کی گئی ہے۔


اڈانی گروپ کے قانونی سربراہ جتن جالندھ والا نے ایک بیان میں کہا کہ یہ رپورٹ ایک غیر ملکی ادارے کی جانب سے سرمایہ کار برادری کو گمراہ کرنے کے لیے جان بوجھ کر اور لاپروائی کے ساتھ تیار کی گئی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس رپورٹ کا مقصد اڈانی انٹرپرائزز کے ایف پی او (فالو آن پبلک آفرنگ) کو سبو تاژ کرنا ہے۔ اس نے ہمارے شیئر ہولڈرز، سرمایہ کاروں اور اڈانی گروپ کو نقصان پہنچایا۔ اس رپورٹ کی وجہ سے بازار میں جو اتھل پتھل مچی وہ باعث تشویش ہے۔ اس سے بھارتی شہریوں میں غیر ضروری ناراضگی پیدا ہوئی۔

اڈانی گروپ نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ وہ اڈانی گروپ کی کمپنیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کے خلاف ہنڈنبرگ ریسرچ کے خلاف قانونی کارروائی پر غور کر رہا ہے۔

ہنڈنبرگ ریسرچ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی رپورٹ پر قائم ہے۔ اس نے اڈانی گروپ کو چیلنج کیا ہے کہ وہ اگر قانونی کارروائی کرنا چاہتا ہے تو امریکہ میں کرے اور عدالت میں جو بھی کارروائی ہوگی وہ میرٹ کی بنیاد پر ہو گی۔

اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ 129 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ ٹیکس پناہ گاہ ماریشس سمیت متعدد ملکوں میں دو سال کی تحقیقات اور کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اس کے مطابق اگر اڈانی گروپ قانونی کارروائی کرنا چاہتا ہے تو امریکہ میں آئے جہاں ہم کام کر رہے ہیں، اس کا خیرمقدم ہے۔ ہمارے پاس دستاویزات کی ایک طویل فہرست ہے۔

اس کے مطابق رپورٹ جاری ہونے کے 36 گھنٹے بعد بھی اڈانی گروپ نے ایک بھی نکتے کا جواب نہیں دیا ہے۔ اس کے مطابق رپورٹ کے آخر میں 88 سوالات ہیں کمپنی کو جن کا جواب دینا چاہیے۔


دریں اثنا بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس نے مطالبہ کیا ہے کہ ہنڈنبرگ کے الزامات کی ریزرو بینک آف انڈیا اور سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا (سیبی) سے جانچ کرائی جائے۔

کانگریس کے میڈیا انچارج جے رام رمیش نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ عام طور پر کانگریس کسی بزنس گروپ کے خلاف کسی تحقیقی دستاویز پر رائے زنی نہیں کرتی لیکن چوں کہ اڈانی گروپ کوئی معمولی گروپ نہیں ہے اس لیے اس کے خلاف جو الزامات عائد کیے گئے ہیں ان کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

اس مطابے پر حکومت یا اڈانی گروپ کی جانب سے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG