رسائی کے لنکس

افغانستان: طالبان کے ہاتھوں قتل ہونے والا خاشہ زوان کون تھا؟


طالبان کے ایک ترجمان قاری یوسف احمدی نے بھی کندھار میں خاشہ زوان کی ہلاکت میں طالبان کے ملوث ہونے کی تصدیق کی ہے۔
طالبان کے ایک ترجمان قاری یوسف احمدی نے بھی کندھار میں خاشہ زوان کی ہلاکت میں طالبان کے ملوث ہونے کی تصدیق کی ہے۔

افغانستان میں ایک سابق پولیس اہلکار اور مقامی مزاحیہ اداکار کو مبینہ طور پر قتل کر دیا گیا ہے جن کے اہل خانہ قتل کا الزام طالبان پر عائد کر رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ کی پشتو سروس کے مطابق قندھار میں فضل محمد نامی شخص کی مسلح افراد کے ساتھ گاڑی میں موجودگی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔ گزشتہ ہفتے کے آخر میں سامنے آنے والی ویڈیو میں موجود شخص کو ’خاشہ زوان‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جن کی مزاحیہ ویڈیوز اکثر و بیشتر سوشل میڈیا پر بھی مشہور ہوتی رہی ہیں۔

قندھار کے حکام کا کہنا تھا کہ خاشہ زوان کو ان کے گھر سے مسلح افراد نے حراست میں لیا تھا۔

خاشہ زوان کی لاش قندھار کے ڈنڈ کے علاقے سے برآمد ہوئی ہے۔ ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق مسلح افراد نے جن کو خاشہ زان کے اہلِ خانہ نے طالبان قرار دیا ہے، ان کو رات کو گھر سے حراست میں لیا۔ بعد ازاں صبح ان کی لاش ملی۔ سوشل میڈیا پر ان کی لاش کی تصاویر بھی زیرِ گردش ہیں جن میں ان کے دونوں ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے نذر الاسلام سے بات کرتے ہوئے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے خاشہ کے مزاحیہ فنکار ہونے کے تاثر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ 'خاشہ ایک مسلح پولیس افسر تھا۔ وہ طالبان کے خلاف برسرِ پیکار تھا۔ اس کے پاس بندوق تھی اور وہ طالبان کے خلاف لڑ رہا تھا'۔

طالبان ترجمان نے بطور ثبوت وائس آف امریکہ سے خاشہ کی ایک تصویر شئیر کی جس میں ان کے ہمراہ ایک بندوق کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ انہیں طالبان جنگجوؤں نے حراست میں لیا تھا۔ جیل منتقلی کے دوران وہ مارے گئے۔ البتہ طالبان نے خاشہ کی ہلاکت کے بارے میں تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ کیوں کہ ان کی ہلاکت طالبان کے طریقۂ کار کے خلاف ہے۔

خاشہ کی ہلاکت کے بعد افغانستان میں طالبان کے رویے کے بارے میں بحث چھڑ گئی ہے۔ اگرچہ طالبان اس بات کی جانب اشارہ کرتے رہے ہیں کہ ان کی پالیسی گزشتہ دور سے قدرے مختلف ہو گی۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسا طالبان صرف حکمرانی کے حصول کے لیے کہتے ہیں۔ جب کہ دراصل طالبان صرف طاقت پر یقین رکھتے ہیں۔

اس سے قبل قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین سے جب خاشہ کی موت کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو انہوں نے اسے الزام قرار دیتے ہوئے پہلے مکمل طور پر مسترد کیا۔ بعد میں جب ان سے خاشہ کی طالبان جنگجوؤں کے ہمراہ ویڈیو شئیر کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیئں۔

قندھار کے مقامی صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت قندھار میں طالبان اور افغان اسپیشل فورسز کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے جس کی وجہ سے ہزاروں افراد جان بچانے کی غرض سے ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خاشہ کی ہلاکت کے بعد مقامی سطح پر خوف میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اب قندھار شہر میں فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے فنکار میڈیا سے بات کرنے سے کتراتے ہیں کیوں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ بھی طالبان کے حملوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔

افغان صحافی کے مطابق خاشہ زوان کو اس سے قبل بھی مخالفین گرفتار کر چکے تھے۔ اور رہائی کے بعد انہوں نے لطیف انداز میں طالبان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

انہوں نے کہا خاشہ کی ویڈیوز کچھ عرصے سے سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹک ٹاک پر کافی مشہور تھیں۔ اگرچہ ان کی ویڈیوز میں مزاحیہ شاعری کے ساتھ ساتھ گالم گلوچ بھی ہوتی تھی جس میں اکثر وہ طالبان کو نشانہ بناتے تھے۔ تاہم مقامی افراد اس سے محظوظ ہوتے تھے۔

طالبان کے ایک ترجمان قاری یوسف احمدی نے بھی قندھار میں خاشہ زوان کی ہلاکت میں طالبان کے ملوث ہونے کی تصدیق کی ہے۔

قاری یوسف احمدی کا سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہنا تھا کہ بدنام عسکریت پسند کو ایک گوریلا حملے میں ہلاک کیا گیا ہے۔

دوسری جانب سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک کار میں دو مسلح افراد کے درمیان خاشہ زوان موجود ہے۔ جب کہ ویڈیو بنانے والا شخص پشتو میں ان سے گفتگو بھی کر رہا ہے۔ ویڈیو بنانے والے شخص کے اس سوال پر کہ ان کو کیسے حراست میں لیا گیا تو خاشہ زوان کا کہنا تھا کہ وہ عید منانے کے لیے گھر آئے ہوئے تھے کہ رات کو ان کو پکڑ لیا گیا۔

بعد ازاں ان کے چہرے پر تھپڑ بھی مارے جا رہے ہیں تو وہ خاموش ہو جاتے ہیں۔

خاشہ زوان کے قتل پر سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے اور کئی سوشل میڈیا صارفین ان کے قتل کی مذمت کر رہے ہیں۔

افغانستان کے اول نائب صدر امر اللہ صالح کا سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہنا تھا کہ خاشہ زوان کے قتل سے ثابت ہو گیا ہے کہ طالبان کسی شریعت کو نہیں مانتے۔ ان کی کوئی عدالت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی قانون اور انسانیت ہے۔

انہوں نے طالبان کو جاہل اور دہشت گردوں کا گروہ قرار دیا۔

افغانستان کے دوم نائب صدر سرور دانش کا سوشل میڈیا کی ایک طویل پوسٹ میں کہنا تھا کہ خاشہ زوان کے چہرے پر مارا گیا تھپڑ افغان عوام کو رسید کیے گئے تھپڑ کے برابر ہے۔ انہوں نے ان کے قتل کی مذمت کی اور اسے افغانستان کے ثقافت کے منافی قرار دیا۔

افغانستان کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سابق ترجمان کبیر حقمل کا کہنا تھا کہ خدا شاہد ہے کہ لڑائی کو اسلام، انسانیت، غیرت اور احساس سے آگے لے جایا گیا ہے اور اس کو وحشت بنا دیا گیا ہے۔

پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن محسن داوڑ نے بھی خاشہ زوان کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نذر محمد لوگوں کو ہنساتا تھا۔ طالبان نے اس کو گھر سے نکال کر قتل کیا۔

افغانستان کے صدر کے سابق مشیر ڈاکٹر عمر ذاخیل وال نے خاشہ زوان کی مسلح افراد کی حراست اور پھر ان کی لاش کے ساتھ اہلِ خانہ کی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ ظلم اور مظلومیت دونوں کی انتہا کی تصاویر۔

افغانستان کے خفیہ ادارے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی کے سابق سربراہ رحمت اللہ نبیل نے کہا کہ کچھ لوگ افغانستان پر حکمرانی کا دعویٰ کر رہے ہیں لیکن ایک معصوم افغان جیسے خوشہ زوان کو بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ گروہ اجرتی قاتلوں پر مشتمل ہے۔

نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کے والد ضیا الدین یوسف زئی نے بھی سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں کہا کہ خاشہ زوان زندگی بھر لوگوں کو ہنساتا رہا۔ سنگ دل دہشت گردوں نے خاشہ زوان کے بچوں کو رُلا دیا۔

افغانستان کی نیشنل سیکیورٹی کونسل سے وابستہ سعید اللہ ترکئی نے کہا کہ خاشہ زوان کا گناہ یہ تھا کہ وہ لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ لاتا تھا۔

افغان نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان کا کہنا تھا کہ خاشہ زوان کی بیوی نوجوانی میں بیوہ ہو گئی ہے جب کہ ان کی بیٹیاں یتیم ہو گئی ہیں۔ عقل سے عاری لوگ اس پر خوش ہو رہے ہیں کہ انہوں نے اسلام کے دشمن کو قتل کر دیا ہے۔ البتہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے دشمن بھی وہی ہیں جو دین کے نام پر لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی، علم اور ترقی کے دور میں بھی ہمارے سامنے جہالت موجود ہے۔

افغان صحافی شریف حسن کا کہنا تھا کہ طالبان نے کامیڈین نذر محمد کو حراست میں لیا۔ وہ کبھی مقامی پولیس کا اہلکار تھا۔ طالبان نے اس کی بے عزتی کی اور اسے تھپڑ مارے۔ پھر اسے گولیاں مار کر قتل کر دیا اور اس کی لاش ایک درخت سے لٹکا دی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی تصویر جس میں لاش ایک گاڑی میں پڑی ہوئی اور ان کی بیٹیاں اور بیوی لاش کے گرد کھڑے ہیں دل کو تکلیف دینے والی تصویر ہے۔

مقامی نشریاتی ادارے سے وابستہ صحافی عبد اللہ ہمیم نے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی اور ساتھ میں لکھا کہ خاشہ زوان قندھار کا ایک مشہور مزاحیہ اداکار اور پولیس اہلکار تھا جس کو گھر سے پکڑ کر قتل کیا گیا۔

نصیب زردان نامی صحافی نے بھی اپنی ایک پرانی سوشل میڈیا پوسٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ طالبان کے ہاتھوں قتل ہونے والا خاشہ زوان سوشل میڈیا پر کافی مشہور تھا۔

صحافی حبیب خان کا کہنا تھا کہ وہ ہمیں ہنستے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔

پاکستان میں متحرک پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ دنیا دوحہ میں ہونے والے متنازع معاہدے کے بعد طالبان کے مظالم پر خاموش ہے۔ افغان سرزمین اور پشتونوں کے خلاف ایک نئے انداز میں جنگ جاری ہے۔

مصنف جعفر ہاند کا کہنا تھا کہ افغان خوشہ زوان کے قتل کی مذمت کرتے ہیں۔

بعض افراد نے خاشہ زوان کو طالبان مخالف ملیشیا کا رکن بھی قرار دیا ہے اور اسلحے کے ساتھ اس کی ویڈیوز اور تصاویر شیئر کی جا رہی ہیں۔

افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتِ حال تیزی سے بدل رہی ہے۔ طالبان کے مطابق غیر ملکی افواج کے انخلا کے آغاز کے بعد سے 200 سے زائد اضلاع پر وہ قبضہ کر چکے ہیں۔

اہم سرحدی گزرگاہوں کے کنٹرول کے ساتھ ساتھ طالبان نے اب ملک کے جنوب مشرق میں اپنی کارروائیوں کا دائرہ کار وسیع کر دیا ہے۔

دوسری جانب افغان اسپیشل فورسز نے طالبان کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق جنوبی صوبے قندھار میں شدید لڑائی جاری ہے جہاں طالبان 17 میں سے 12 اضلاع کے مکمل کنٹرول کا دعویٰ کرتے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں اس وقت مکمل غیر یقینی کی صورتِ حال ہے۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مقیم دفاع اور سیکیورٹی امور کے ماہر مطیع اللہ خروٹی کا وائس آف امریکہ کے نمائندے نذر الاسلام سے گفتگو میں کہنا تھا کہ عوام طالبان اور افغان حکومت دونوں کی پالیسی سے خوش نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خاشہ زوان کی ہلاکت اس بات کی قوی دلیل ہے کہ افغانستان اب بھی فنکار طبقے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی بہت سارے فن سے تعلق رکھنے والے افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

مطیع اللہ خروٹی کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں میں حکومت افغان عوام کے لیے معیاری تعلیمی ادارے، اسپتال، روزگار اور تفریح کے مواقع فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ لوگ اب بھی تعلیم اور علاج معالجے کی غرض سے بھارت اور پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG