رسائی کے لنکس

افغان حکام کا مشرقی ضلع سے داعش کو پسپا کرنے کا دعویٰ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ننگرہار پولیس کے سربراہ گل آقا روحانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس علاقے میں تعینات افغان فورسز داعش کے عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لیے چوکس ہیں۔

افغان حکومت نے ملک کے ایک مشرقی ضلع میں شدت پسند گروپ داعش کے خلاف تین ماہ سے جاری آپریشن کامیابی سے مکمل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

ننگرہار صوبے میں افغان فوج کے ایک ترجمان شرین آقا فقیر نے وائس آف امریکہ کی افغان سروس کو بتایا کہ حالیہ دنوں میں " داعش گروپ کو پچراگام سے نکال باہر کیا گیا ہے اور داعش کے جنگجو اب ان علاقوں میں موجود نہیں ہیں۔"

قبل ازیں رواں ماہ پچراگام میں شدت پسند گروپ کی شکست کے بعد داعش کے جنگجوؤں نے قریب ہی واقع کوٹ ضلع پر حملہ کیا جس میں انہو ں نے مقامی ملیشیا فورسز کو نشانہ بنایا۔

مقامی لوگوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دہشت گرد گروپ کے جنگجو پولیس کی چیک پوسٹ کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔

ننگرہار پولیس کے سربراہ گل آقا روحانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس علاقے میں تعینات افغان فورسز داعش کے عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لیے چوکس ہیں۔

پچراگام کے صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ مقامی افراد کو ملیشیا فورس میں بھرتی کیا گیا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ داعش کے شدت پسند اس علاقے میں واپس نہ آ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اس علاقے کے سیکڑوں مکینوں نے فوج میں بھرتی ہونے کے لیے اپنے ناموں کا اندراج کروایا ہے۔

فقیر نے کہا کہ "ہم نے مقامی لشکر کے پانچ سو افراد کو 12 سکیورٹی چوکیوں اور فوج کے دو اڈوں پر تعینات کیا ہے۔ ہم نے پچراگام اور چپرھار کی شاہراہ پر پانچ پولیس چوکیاں بھی قائم کی ہیں۔ "

ننگرہار پولیس کے ترجمان حضرت مشرقی وال نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بھرتی کیے جانے والوں کی اکثریت کو بعد میں مقامی پولیس اور افغان سیکورٹی فورسز میں شامل کر دیا جائے گا اور ان افراد کو حکومت تنخواہ دے رہی ہے۔

فقیر نے کہا کہ بوقت ضرورت اس علاقے میں تعینات ملیشیا فورس کو اسلحہ فراہم کرنے کے لئے ایک فوجی مرکز بھی قائم کیا گیا ہے۔

افغانستا ن کے مشرقی صوبے ننگرہار کے ضلع پچراگام میں افغان سکیورٹی فورسز نے اکتوبر میں داعش کے جنجگوؤں کے خلاف اس وقت کارروائی کا آغاز کیا جب شدت پسندوں نے ان چوکیوں پر حملہ کیا جہاں مقامی ملیشیا فورس تعینات تھی۔

اطلاعات کے مطابق داعش کے جنگجوؤں نے دسمبر میں مقامی ملیشیا کے 60 اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا تھا جن کو بازیاب کروانے کی کوششیں تاحال کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔

شورش کا شکار کوٹ ضلع جس کی آبادی تقریباً ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد پر مشتمل ہے، داعش کی کارروائیوں کا سب سے زیادہ شکار ہوا ہے اور گزشتہ موسم گرما میں کوٹ کے کئی علاقوں پر بڑا حملہ کیا گیا جس کی وجہ سے درجنوں افراد ہلاک اور سیکڑوں بے گھر ہو گئے۔

پچراگام کے ضلعی گورنر حضرت اللہ رحمانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "انہوں نے داعش کے خلاف آپریشن ختم کر دیا ہے لیکن طالبان عسکریت پسند اب بھی اس علاقے میں موجود ہیں۔"

XS
SM
MD
LG