رسائی کے لنکس

وطن کے لیے اپنے پانچ بیٹے قربان کرنے والی أفغان ماں


افغان صدر اشرف غنی داعش کے خلاف لڑائی میں اپنے پانچ بیٹے قربان کرنے والی ماں کو وطن کے لیے ان کے گھرانے کی خدمات کے اعتراف میں تمغہ دے رہے ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی داعش کے خلاف لڑائی میں اپنے پانچ بیٹے قربان کرنے والی ماں کو وطن کے لیے ان کے گھرانے کی خدمات کے اعتراف میں تمغہ دے رہے ہیں۔

أفغانستان کے ضلع کوٹ کی آبادی، جس کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں ایک لاکھ 60 ہزار کے قریب ہے۔ یہ علاقہ داعش کے جنگجوؤں کا بطور خاص ہدف رہا ہے۔ وہاں کچھ حصوں میں شورش پسندوں نے سرکاری اسکول بند کروا دیے اور ان کی جگہ اپنے مذہبی مدرسے کھول دیے۔

أفغانستان کے صدر اشرف غنی کے صوبہ ننگرہار کے ایک دور افتادہ گاؤں کی ایک ماں کو وطن کے لیے ان کے گھرانے کی خدمات کے اعتراف میں تمغے سے نوازا ہے جن کے پانچ بیٹوں کو پچھلے سال داعش کے جنگجوؤں نے اس لیے ہلاک کر دیا تھا کیونکہ وہ مقامی ملیشیا میں شامل ہو کر اپنی آبادیوں کو دہشت گردوں سے بچا رہے تھے۔

پچھلے سال کے وسط میں داعش کے عسکریت پسندوں نے أفغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار کے ضلع کوٹ کے مختلف حصوں میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت کی جس میں درجنوں دیہاتی ہلاک اور سینکڑوں بے گھر ہو گئے۔

ایک دور افتادہ گاؤں قلعہ جات کی نیاز بی بی نے اپنے گھر پر داعش کے جنگجوؤں کو دھاوا بولتے اور اپنے 9 میں سے 5 بیٹوں کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا، جو وہاں سب ایک ساتھ رہ رہے تھے۔

نیاز بی بی نے، جو 12 بچوں کی ماں ہیں، وائس آف امریکہ کو ٹیلی فون پر بتایا کہ انہوں نے پہلے میرے بیٹوں کو گولیاں ماریں اور پھر ان کی گردنیں کاٹ دیں۔

نیاز بی بی کے گھر کو بطور خاص اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ ان کے کچھ بیٹے مقامی أفغان پولیس کے لیے کام کرتے تھے۔ أفغان حکومت نے بستیوں کو شورش پسندوں سے بچانے میں مدد کے لیے مقامی پولیس کا نظام قائم کیا تھا۔

داعش اور طالبان مقامی پولیس کے اہل کاروں کو ہدف بناتے رہتے ہیں۔ أفغان حکومت کا اندازہ ہے کہ مقامی پولیس اہل کاروں کی تعداد 30 ہزار کے لگ بھگ ہے۔

أفغانستان کے ضلع کوٹ کی آبادی، جس کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں ایک لاکھ 60 ہزار کے قریب ہے۔ یہ علاقہ داعش کے جنگجوؤں کا بطور خاص ہدف رہا ہے۔ وہاں کچھ حصوں میں شورش پسندوں نے سرکاری اسکول بند کروا دیے اور ان کی جگہ اپنے مذہبی مدرسے کھول دیے۔

نیاز بی بی کے زندہ بچ جانے والوں سے میں سے ایک بیٹا اور 30 پوتے پوتیاں دہشت گردوں کے حملے میں شدید زخمی ہوئے۔

پچھلے سال کے آخر میں نیاز بی بی کے سب سے بڑے بیٹے کو، جو أفغان پولیس فورس کا رکن تھا، داعش کے جنگجوؤں نے ہلاک کردیا تھا۔

نیاز بی بی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ داعش کے حملے میں جو لوگ محفوظ رہ گئے تھے انہیں اپنی جانیں بچانے کے لیے گھر سے بھاگنا پڑا۔ جنگجوؤں نے ہمارے گھروں اور ہمارے اثاثوں کو آگ لگا دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں اپنے بیٹوں کی تدفین کا موقع نہیں ملا لیکن وہ گاؤں کے لوگوں کی شکرگذار ہیں جنہوں نے انہیں احترام کے ساتھ سپرد خاک کیا۔

نیاز بی بی نے بتایا کہ ان کے بیٹے شادی شدہ تھے جو اپنے پیچھے بیوائیں اور 30 بچے چھوڑ گئے ہیں، جن کی دیکھ بھال مجھے کرنی پڑ رہی ہے۔

صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ نیاز بی بی کے خاندان کو بے یارومددگار نہیں چھوڑا جائے گا، کیونکہ ان کے پیاروں نے اپنی زندگیاں وطن کی خاطر قربان کی ہیں۔ صوبائی عہدے داروں نے فوری مدد کے طور پر ہر مرنے والے فرد کےکنبے کے لیے ایک لاکھ افغانی فی کس اور ہر زخمی کے لیے 50 ہزار افغانی فراہم کیے۔

صوبہ ننگرہار کے گورنر سیلم خان قندوزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صوبائی حکومت ان کے بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرے گی۔

صوبائی حکا م نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سیکیورٹی فورسز نے داعش کے 120 سے زیادہ جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا ہے جن میں ان کا ایک سینیئر کمانڈر بھی شامل ہے اور ان کے اہم ٹھکانوں پر قبضہ کر لیا ہے۔

لیکن نیاز بی بی کا کہنا ہے کہ داعش آسانی سے جان چھوڑنے والا گروپ نہیں ہے۔ انہیں خوف ہے کہ وہ پھر واپس آ جائیں گے۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے سنا ہے کہ وہ میرے زندہ بچ جانے والے تین بیٹوں کو ہدف بنانا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے خودکش بمبار تیار کیے ہیں۔

XS
SM
MD
LG