رسائی کے لنکس

کابل اسپتال حملے میں ہلاکتیں 50 ہوگئیں، تحقیقات جاری


حملے کے اطلاع ملتے ہی سکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد جائے وقوع پر پہنچ گئی تھی۔
حملے کے اطلاع ملتے ہی سکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد جائے وقوع پر پہنچ گئی تھی۔

جنرل ہلال کا کہنا تھا کہ تاحال ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جس سے یہ بات ثابت ہو سکے کہ یہ حملہ اسپتال کے اندر سے ہی شروع کیا گیا اور اس میں اسپتال کا کوئی ڈاکٹر بھی ملوث تھا۔

افغانستان میں حکام نے بدھ کو بتایا کہ گزشتہ ہفتے کابل میں ملک کے سب سے بڑے فوجی اسپتال پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں ہلاکتوں کی تعداد 50 ہو گئی ہے۔

آٹھ مارچ کو شدت پسندوں نے سردار داؤد خان اسپتال پر حملہ کیا تھا جس میں حکام نے 30 افراد کے مرنے کی تصدیق کی تھی۔

لیکن اس واقعے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کے سربراہ اور نائب وزیردفاع جنرل ہلال الدین ہلال نے بدھ کو کابل میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ ہلاکتوں کی تعداد 50 تک پہنچ گئی ہے۔

اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

جنرل ہلال نے بتایا کہ حملے میں کل پانچ شدت پسندوں نے حصہ لیا جن ایک خودکش بمبار تھا جس نے اپنے جسم سے بندھے بارودی مواد میں دھماکا کیا جس کے بعد دیگر حملہ آور عمارت میں جا گھسے۔

ان کے بقول اب تک 24 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور اس واقعے کی منصوبہ بندی یا پھر فرائض میں غفلت کا تعین کرنے کے لیے تفتیش کی جا رہی ہے۔

حملے کے بعد عینی شاہدین کی طرف سے یہ اطلاعات فراہم کی گئی تھیں کہ حملہ آور ڈاکٹروں کے بھیس میں اسپتال میں داخل ہوئے جس سے ان قیاس آرائیوں نے بھی جنم لیا کہ اس واقعے میں اسپتال کا کوئی ڈاکٹر ملوث ہو سکتا ہے۔

تاہم جنرل ہلال کا کہنا تھا کہ تاحال ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جس سے یہ بات ثابت ہو سکے کہ یہ حملہ اسپتال کے اندر سے ہی شروع کیا گیا اور اس میں اسپتال کا کوئی ڈاکٹر بھی ملوث تھا۔

ان کے بقول حملہ اسپتال کے باہر خودکش دھماکے سے شروع ہوا جس کے بعد مسلح افراد عمارت میں داخل ہوئے اور عملے پر اندھا دھند گولیاں چلائیں۔

جنرل ہلال نے بتایا کہ حملہ آوروں کے پاس بندوقیں، دستی بم اور چاقو بھی تھے اور عملے کے بعض ارکان پر شدت پسندوں نے چاقوؤں سے بھی وار گئے۔

XS
SM
MD
LG