رسائی کے لنکس

افغان صدر اور حکمت یار نے امن سمجھوتے پر دستخط کر دیے


اس موقع پر افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ وہ حکمت یار کا نام دہشت گردوں کی فہرست سے نکلوانے کے لیے اقوام متحدہ اور امریکہ سے بات کریں گے۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی اور عسکریت پسند تنظیم حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے امن معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔

اس موقع پر اشرف غنی نے کہا کہ وہ حکمت یار کا نام دہشت گردوں کی فہرست سے نکلوانے کے لیے اقوام متحدہ اور امریکہ سے بات کریں گے۔

دونوں راہنماؤں نے اس سمجھوتے پر دستخط جمعرات کو وڈیو لنک کے ذریعے کیے اور اس کارروائی کو مقامی ٹی وی چینل پر براہ راست دکھایا گیا۔ اس موقع پر اشرف غنی اپنے صدارتی محل میں موجود تھے تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ اس وقت حکمت یار کہاں تھے۔

افغانستان میں 2001 میں طالبان کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد شروع ہونے والی لڑائی کے بعد یہ افغان حکومت اور کسی عسکریت پسند گروپ کے درمیان طے پانے والا پہلا سمجھوتا ہے۔

اس موقع پر صدر اشرف غنی نے کہا کہ ،" یہ طالبان اور دیگر عسکری گروہوں کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرنا چاہیں گے ، کیا حزب اسلامی کی طرح عوام کے ساتھ مل کر امن کے کاررواں کا حصہ بننا چاہیں گے یا لوگوں کے خلاف پر سرپیکار رہ کر کے قتل و غارت جاری رکھیں گے۔"

افغان امور کے معروف تجزیہ کار اور سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغان حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان طے پانے والے امن سمجھوتہ کی اہمیت ان کے بقول صرف علامتی ہو گی۔

" اس کی علامتی اہمیت ہے اس سے افغان حکومت یہ کہہ سکتی ہے کہ بات چیت کی ذریعے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔۔۔ اس سے افغانستان میں ایک اچھا تاثر پیدا ہو گا اور اس حوالے سے اس کی کافی اہمیت ہو گی کہ بات چیت کے ذریعے بھی مسائل کا حل ممکن ہے ۔"

اس پیش رفت کو بین الاقوامی برادری کی طرف سے بھی سراہا جارہا ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ مستقبل میں طالبان کے ساتھ کسی امن معاہدے کے لیے ممکنہ مثال بن سکتا ہے.

پاکستان حکومتِ افغانستان اور حزب اسلامی کے درمیان طے پانے والے سمجھوتے پر دستخط کا خیرمقدم کر چکا ہے۔

گزشتہ اتوار کو پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ''پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے، اس ضمن میں ہم افغان تسلیم شدہ اور افغان قیادت والی امن کی تمام مخلص کوششوں کی حمایت کرتے ہیں''۔

حکمت یار پر عائد تعزیرات ختم ہونے کی صورت میں توقع کی جاتی ہے کہ وہ واپس افغانستان آ جائیں گے۔

حزب اسلامی کے کابل میں موجود وفد کے سربراہ امین کریم کا کہنا ہے کہ کچھ ہی ہفتوں کی اندر ایسی پیش رفت ممکن ہے۔

یہ معاہدہ افغان اعلیٰ امن کونسل اور حزب اسلامی کے نمائندوں کے درمیان ایک عرصے تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد گزشتہ ہفتے طے پایا تھا اور اس کے تحت حزب اسلامی کو افغانستان میں مکمل سیاسی حقوق حاصل ہو سکیں گے۔

افغان قیادت ملک میں قیام قیام امن کے لیے دیگر مسلح گروہوں کو بھی مذاکرات کی پیشکش کر چکی ہے لیکن طالبان نے تاحال اس کا مثبت جواب نہیں دیا۔

XS
SM
MD
LG