رسائی کے لنکس

افغان طالبان کا ایک بار پھر عالمی برادری سے حکومت تسلیم کرنے کا مطالبہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغان طالبان کے امیر ہبت اللہ اخوند زادہ نے ایک بار پھر عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے۔

عیدالفطر سے قبل جمعے کو جاری کیے گئے ایک تحریری پیغام میں طالبان کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ دنیا اب ایک 'چھوٹے گاؤں' میں تبدیل ہو چکی ہے۔لہٰذا باضابطہ سفارتی تعلقات سے ملک کی مشکلات کم کرنے میں مدد ملے گی۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس اگست میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد کسی بھی ملک نے وہاں ان کی حکومت تسلیم نہیں کی ہے۔ مگر روس اور چین نے افغان سفارتکاروں کو اپنے یہاں کام کی اجازت دے دی ہے۔

عالمی برادری کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ طالبان پہلے انسانی حقوق کی صورتِ حال، خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم جاری رکھنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ اس کے بعد ہی ان کی امداد اور انہیں تسلیم کرنے سے متعلق پیش رفت ہو سکے گی۔

البتہ اپنے بیان میں افغان طالبان کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کے مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ پہلے یہاں ہماری حکومت کو تسلیم کیا جائے جس کے بعد ہی ہم سفارتی آداب اور اُصولوں کے مطابق اپنے مسائل حل کر سکیں گے۔

خیال رہے کہ افغان طالبان نے گزشتہ ماہ لڑکیوں کے اسکول سات ماہ بعد کھولنے کے چند گھنٹے بعد ہی دوبارہ بند کر دیے تھے جس سے طالبات اور انسانی حقوق کے کارکنوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔

امریکہ، اقوامِ متحدہ اور دنیا کے دیگر ممالک نے بھی طالبان کے اس اقدام پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کرنا کسی بھی مہذب معاشرے کا شیوا نہیں ہے۔

طالبان کے روحانی مرکز قندھار میں قیام پذیر افغان طالبان کے سربراہ ہبت اللہ اخوند زادہ تاحال منظرِ عام پر نہیں آئے ہیں۔ طالبان کے مطابق انہوں نے گزشتہ سال اکتوبر میں ایک مدرسے میں خطاب کیا مگر اس کی کوئی تصاویر یا وڈیو سامنے نہیں آئی، البتہ سوشل میڈیا پر طالبان نے تقریبا دس منٹ طویل ایک آڈیو کلپ جاری کیا۔ ملا ہیبت اللہ مختلف اہم مواقع پر بیانات جاری کرتے رہتے ہیں۔

جمعے کو جاری کیے گئے بیان میں اُن کا مزید کہنا تھا کہ''عالمی امن و استحکام میں افغانستان کا ایک اہم کردار ہے، لہذا دنیا کو چاہیے کہ وہ امارتِ اسلامیہ کی حکومت کو تسلیم کرے۔ ''

طالبان کے سربراہ کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حال ہی میں افغانستان کے مختلف شہروں میں خوفناک بم دھماکوں میں درجنوں شہری ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔ ان حملوں میں شیعہ کمیونٹی کی مساجد کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا جس کی ذمے داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔

جمعے کو روز کابل کی ایک مسجد میں ہونے والے دھماکے میں درجنوں افراد کے ہلاک اور زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ اس سے پہلے جمعرات کو بھی مزار شریف میں دو منی بسوں میں ہونے والے بم دھماکوں میں کم از کم نو افراد ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے تھے۔

اپنے تحریری بیان میں ہبت اللہ اخوندزادہ نے ملک میں بے امنی کا تذکرہ نہیں کیا، تاہم اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان ایک مضبوط 'اسلامی اور قومی فوج' کے قیام کے ساتھ ساتھ ایک جامع انٹیلی جنس نیٹ ورک قائم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ہزاروں خواتین کو اپنی ملازمتوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑا جب کہ ان خواتین کو ملک سے باہر جانے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ حتیٰ کے شہروں کے مابین مرد رشتے دار کے بغیر خواتین کے سفر پر بھی پابندی عائد ہے۔

علاوہ ازیں طالبان کی جانب سے لڑکیوں کے اسکول کھولنے کے کچھ ہی دیر بعد بند کرنے کے فیصلے پر خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' نے رپورٹ کیا کہ متعدد طالبان رہنما یہ تصدیق کر چکے ہیں کہ لڑکیوں کے اسکول بند کرنے کا حکم ہبت اللہ اخوند زادہ نے ہی دیا تھا۔

ہبت اللہ اخوند زادہ نے جمعے کے بیان میں مزید کہا کہ "ہم افغانستان میں مردوں اور خواتین کے لیے شرعی قوانین پر عمل کریں گے، لہٰذا اس انسانی اور جذباتی معاملے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔

اپنے بیان میں ہبت اللہ اخوند زادہ کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت 'اسلامی اقدار' کے مطابق آزادیٔ اظہار رائے کے لیے پرعزم ہے۔

واضح رہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد درجنوں نیوز چینلز بند ہو چکے ہیں جب کہ میوزیکل کانسرٹس پر پابندی کے علاوہ خواتین کرداروں پر مشتمل ٹی وی ڈرامے بھی بند کر دیے گئے ہیں۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG