رسائی کے لنکس

افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے مکمل انخلا کا مطالبہ


طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور (فائل فوٹو)
طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور (فائل فوٹو)

ملا اختر منصور نے منگل کو جاری بیان میں طالبان باہمی اختلافات سے متعلق خدشات کو مسترد کرتے ہوئے ایسی خبروں کو دشمن کا پروپیگنڈا قرار دیا۔

افغان طالبان کے نئے سربراہ ملا اختر منصور نے ایک بیان میں کہا کہ اُس وقت تک بات چیت نہیں ہو سکتی جب تک افغان حکومت امریکہ اور نیٹو سے سکیورٹی معاہدے کو منسوخ نہیں کر دیتی اور تمام بین الاقوامی فورسز افغانستان سے واپس نہیں چلی جاتیں۔

عید الاضحیٰ سے قبل اپنے پیغام میں ملا اختر منصور نے ایک مرتبہ پھر افغانستان سے تمام بین الاقوامی فورسز کے انخلاء کے مطالبے کو دہرایا ہے۔

اپنے پیغام میں ملا اختر منصور نے کہا کہ اگر کابل انتظامیہ جنگ کا خاتمہ اور ملک میں امن کا قیام چاہتی ہے تو یہ اُسی صورت ممکن ہے جب ملک سے ’’قبضہ‘‘ ختم کرایا جائے۔

نیٹو کا لڑاکا مشن گزشتہ سال کے اواخر میں ختم ہو گیا تھا لیکن کابل حکومت نے امریکہ اور نیٹو فورسز سے دو مختلف سکیورٹی معاہدوں پر دستخط کیے جن کے تحت بین الاقوامی افواج کے اہلکار افغان فورسز کی تربیت کے لیے ملک میں موجود ہیں۔

افغانستان میں اس وقت بین الاقوامی فوجیوں کی تعداد 14 ہزار ہے جن میں اکثریت امریکی فوجیوں کی ہے۔

طالبان کے سربراہ نے اپنے بیان میں متنبہ کیا کہ غیر ملکی دباؤ افغان مسئلے کو حل کرنے میں مدد نہیں کرے گا بلکہ اس سے اُن کے بقول مسائل مزید بڑھیں گے۔

اُنھوں نے کسی ملک کا نام نہیں لیا، لیکن افغانستان کے پڑوسی ملک پاکستان کی طرف سے حالیہ مہینوں میں طالبان پر دباؤ میں اضافہ ہوا کہ وہ صدر اشرف غنی کی حکومت سے بات چیت کریں۔

رواں سال جولائی میں پاکستان کی میزبانی میں پہلی مرتبہ افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان براہ راست مذاکرات ہوئے، جن سے جنگ سے تباہ اس ملک میں امن و مصالحت کی اُمیدیں بڑھ گئیں۔

مذاکرات کا دوسرا دور بھی جولائی کے اواخر میں پاکستان ہی میں ہونا تھا لیکن طالبان کے سربراہ ملا عمر کے انتقال کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد بات چیت کا عمل غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہو گیا۔

ملا عمر کے انتقال کے بعد جب ملا اختر منصور کو طالبان کا سربراہ منتخب کیا گیا تو کئی سینیئر طالبان رہنماؤں کی طرف سے اس کی مخالفت کی گئی اور قیادت کے معاملے پر طالبان کے درمیان اندرونی اختلافات پیدا ہو گئے۔

لیکن یہ تنازع گزشتہ ہفتے بظاہر اُس وقت حل ہو گیا جب ملا عمر کے خاندان نے ملا اختر منصور کی حمایت کا اعلان کر دیا، تاہم ابھی کچھ کمانڈروں کی طرف سے اُنھیں مخالفت کا سامنا ہے۔

ملا اختر منصور نے منگل کو جاری بیان میں طالبان باہمی اختلافات سے متعلق خدشات کو مسترد کرتے ہوئے ایسی خبروں کو دشمن کا پروپیگنڈا قرار دیا۔

یہ واضح نہیں ہے کہ ملا اختر منصور کی قیادت تلے افغان طالبان کتنے متحد ہیں۔

صدر اشرف غنی نے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے افغانستان میں امن کے لیے کردار ادا کرنے کا کہا تھا، جس کے تحت ہی طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہ راست بات چیت ممکن ہوئی۔

لیکن اگست کے اوائل میں افغانستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافے کے بعد افغانستان کی طرف سے پاکستان پر الزام لگایا گیا کہ اب بھی دہشت گردوں کی پناہ گاہیں اُس کی سرزمین پر موجود ہیں جہاں سے وہ افغانستان میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

تاہم پاکستان ایسے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے پشاور میں فضائیہ کے اڈے پر طالبان کے حملے کے بعد پاکستانی فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ اس کی منصوبہ بندی سرحد پار افغانستان میں چھپے شدت پسندوں نے کی۔

تاہم اُنھوں اس ضمن میں افغانستان کی حکومت کا نام نہیں لیا۔

پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ پشاور حملے کے بارے میں شواہد افغانستان کی حکومت کو فراہم کیے جائیں گے۔

اُدھر پیر کی شب افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سے ٹیلی فون رابطہ کر کے پشاور حملے کی شدید مذمت کی۔

صدر اشرف غنی نے کہا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔

XS
SM
MD
LG