رسائی کے لنکس

داعش کے خلاف سیکڑوں افغان شہریوں کی سکیورٹی فورسز میں شمولیت


فائل فوٹو
فائل فوٹو

حکام کا کہنا ہے کہ داعش کے جنگجوؤں نے گزشتہ ماہ پچیر اوگام کے ضلع پر حملہ کر کے کئی مکانوں کو تباہ اور 70 سے زائد مقامی افراد کو قید کر لیا۔

افغانستان کے مشرقی صوبے ننگر ہار کے مقامی حکام کا کہنا ہے کہ داعش سے واگزار کروائے گئے علاقوں کی مکینوں نے افغان نیشنل سکیورٹی فورسز اور صوبائی پولیس میں بھرتی ہونا شروع کر دیا ہے۔

افغان سکیورٹی فورسز نے دو ہفتے قبل ننگرہار کے پچير او اگام کے ضلع سے داعش کے انتہاپسندوں کو نکال باہر کیا جس کے بعد سے سیکڑوں کی تعداد میں افراد نے داعش کے خلاف لڑنے کے لیے مرکزی حکومت کی سیکورٹی فورسز میں شمولیت اختیار کی ہے۔

بتایا گیا ہے کہ انہوں نے ایسا اس لیے کیا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ داعش کے شدت پسند دوبارہ اس علاقے میں نا آ سکیں۔

ننگر ہار کی صوبائی انتظامیہ کے ترجمان عطااللہ خوگیانی کے مطابق قبل ازیں مقامی افراد نے داعش کے قبضے کی مزاحمت کی تھی اور اب حکومت نے انہیں ہتھیاروں سے مسلح کر دیا ہے۔

خوگیانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "آئندہ چند دنوں میں یہ افراد افغان سکیورٹی فورسز کے دائرہ کار میں رہ کر لڑیں گے۔"

ان افراد کو پاکستان کی سرحد کی قریب واقع اضلاع میں سکیورٹی چوکیوں پر تعینات کیا جا ئے گا جہاں زیادہ خطرہ ہے۔

ترجمان نے کہا کہ ان افراد کی تعیناتی میں معاونت کے لیے افغان نیشنل سکیورٹی فورسز کے اہلکار اسی علاقے میں موجود رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نئے بھرتی ہونے والے اہلکار بھاری ہتھیاروں کا مطالبہ کر رہے ہیں جو کہ متوقع طور پر مرکزی حکومت کے سکیورٹی سے متعلق محکمے کی طرف سے فراہم کیے جائیں گے۔

حکام کا کہنا ہے کہ داعش کے جنگجوؤں نے گزشتہ ماہ پچیر اوگام کے ضلع پر حملہ کر کے کئی مکانوں کو تباہ اور 70 سے زائد مقامی افراد کو قید کر لیا۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اب بھی ان میں سے 63 افراد داعش کی قید میں ہیں۔

اگرچہ افغان سکیورٹی فورسز کے لیے سب سے بڑا چیلنج طالبان عسکریت پسندوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں ہیں تاہم حالیہ مہینوں میں ملک کے مختلف علاقوں میں داعش کے شدت پسند بھی سرگرم چلے آرہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG