رسائی کے لنکس

افغان خواتین کے لیے” محفوظ گھروں“ کا انتظام حکومت کے پاس


افغان خواتین کے لیے” محفوظ گھروں“ کا انتظام حکومت کے پاس
افغان خواتین کے لیے” محفوظ گھروں“ کا انتظام حکومت کے پاس

انسانی حقوق کی علمبردار مغربی تنظیموں کے خدشات کو نظر انداز کرتے ہوئے افغانستان میں حکومت نے اعلان کیا ہے کہ مصیبت زدہ افغان خواتین کے لیے قائم فلاحی اداروں کا نظام وہ خود چلائے گی۔

گھریلو تشدد کا شکار خواتین کے لیے یہ ادارے غیر ملکی اور افغان فلاحی تنظیموں نے قائم کر رکھے ہیں۔ لیکن بعض قدامت پسند افغانوں کا الزام ہے کہ یہ ادارے جنسی کاروبار اور خواتین کو اپنے خاندانوں سے دور کرنے کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔

منگل کو کابل میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خواتین کے امور کے لیے وزیر حُسن بانو غضنفر نے کہا کہ محفوظ گھروں کے نام سے قائم ان اداروں کی مکمل چھان بین کے بعد حکومت نے ایک قانون بنانے کی تجویز دی ہے جس کے بعد یہ ادارے اُن کی وزارت کے زیر انتظام چلائے جائیں گے۔

اُنھوں نے کہا کہ یہ اقدام اسی سلسلے کی کڑی ہے جس کا مقصد افغانستان کے امور بہتر طور پر چلانے کی ذمہ داری بین الاقوامی برادری سے خود افغانوں کو منتقل کرنا ہے۔

افغانستان میں 2001ء میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد محفوظ گھروں کے نام سے یہ فلاحی ادارے قائم کیے گئے تھے اور وزیر حسن بانو کے مطابق اس وقت ملک میں گیارہ اندارج شدہ ان اداروں میں 210 خواتین اور لڑکیا ں رہائش پذیر ہیں۔ لیکن حقوق انسانی کی تنظیموں نے افغان حکومت کے اس فیصلے کی سخت مذمت کی ہے۔ امریکہ میں قائم ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے کہا ہے کہ اس اقدام سے خواتین کو ان پناہ گاہوں سے بے دخل کرنے کی راہ ہموار ہوگی ۔

تنظیم کی افغانستان میں مقیم ایک عہدے دار، ریشل ریڈ، کے بقول افغان حکومت پربنیاد پرست قدامت پسندوں کا غلبہ ہے جو شروع دن سے ان اداروں کے وجود کے خلاف جارحانہ رویہ رکھتے ہیں کیونکہ یہ اُن خواتین کو کسی حد تک خودمختاری دیتے ہیں جو اپنے شوہروں اور خاندان کے افراد کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ ”حکومت کے زیر انتظام ان اداروں پر خاندان کے افراد اور قبائل کی طرف سے دباؤ ڈال کر تشدد کا شکار خواتین کو گھر واپس لے جانا آسان ہو گا جس سے اُن کی زندگیا ں خطرے میں پڑسکتی ہیں۔ “

XS
SM
MD
LG