رسائی کے لنکس

افغانستان میں روزگار تباہ مگر برآمدات پہلی مرتبہ ایک ارب ڈالر سے اوپر چلی گئیں


فائل فوٹو
فائل فوٹو

عالمی ادارہ محنت کا کہنا ہے کہ افغانستان میں معیشت کی زبوں حالی کی وجہ سے روزگار کا بحران پیدا ہو گیا ہے اور حالیہ عرصے میں پانچ لاکھ سے زیادہ افراد اپنی ملازمتیں کھو بیھٹے ہیں، جب کہ دوسری جانب ملک کی برآمدات ایک ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہیں۔

کابل میں طالبان کے زیر انتظام پہلی اقتصادی کانفرنس میں اقوام متحدہ کے افغان مشن کی سربراہ ڈیبورا لیونز نے تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ " یہ پہلا موقع ہے کہ افغانستان کی برآمدات نے ایک ارب ڈالر کا ہندسہ عبور کر لیا ہے اور سرکاری ملازمین کو تنخواہیں ادا کر دی گئی ہیں"۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان کا نیا بجٹ قومی محصولات پر مشتمل ہے اور اس کا انحصار کسی عطیے اور گرانٹ پر نہیں ہے۔اقوام متحدہ کی افغان مشن کی سربراہ لیونز کا کانفرنس میں کہنا تھا کہ ہم افغانستان کے عوام کی مدد کے لیے آپ کے ساتھ کام جاری رکھنےکی شدید خواہش رکھتے ہیں۔"

افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی مشن کی نمائندہ لیونزنے بدھ کے روز کہا ہے کہ طالبان نے پانچ مہینوں کے اپنے اقتدار کے دوران محصولات میں اضافہ اور بدعنوانی میں کمی بھی کی ہے۔

ڈیبورا لیونز نے ایک جامع حکومت کے قیام اور خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ معیشت اسی وقت پھلتی پھولتی ہے جب خواتین اور معاشرے کا ہر طبقہ اس میں مساوی طور پر حصہ لیتا ہے۔

لیونز نے ان خیالات کا اظہار طالبان کی جانب سے معیشت پر منعقد کی جانے والی ایک روزہ کانفرنس میں کیا۔ اپنی نوعیت کی یہ پہلی کانفرنس ایک ایسے موقع پر بلائی گئی جب افغانستان انسانی بحران کے دہانے پر ہے اور معیشت تباہ ہو چکی ہے۔

اس کانفرنس میں انسانی امداد کی تنظیموں کے نمائندوں اور ان سفارت کاروں نے بھی شرکت کی جو ابھی تک ملک میں موجود ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کے کاروباری افراد، ماہرین اور طالبان کی کابینہ کے وزرا بھی شریک ہوئے۔کانفرنس کی صدارت وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند نے کی۔

افغانستان کے قائم مقام وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند، کابل میں پہلی اقتصادی کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔ 19 جنوری 2022
افغانستان کے قائم مقام وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند، کابل میں پہلی اقتصادی کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔ 19 جنوری 2022

ملا اخوند نے اپنی تقریر میں افغانستان کے منجمد اثاثے جاری کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ "ہم یہ رقم اپنی حکومت کے افسروں کے لیے نہیں مانگ رہے، ہم ان فنڈز کا مطالبہ اپنے غریب عوام کے لیے کر رہے ہیں"۔

افغانستان کے منجمد فنڈز کی بحالی کے مطالبوں میں حالیہ ہفتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ کے ڈیموکریٹ سینیٹر برنی سینڈز نے منگل کو اپنی ایک ٹوئٹ میں جو بائیڈن سے فنڈز جاری کرنے کی اپیل کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ " افغانستان انسانی صورت حال کی تباہی کا سامنا کر رہا ہے۔ میں بائیڈن انتظامیہ پر زور دیتا ہوں کہ اس بحران کو روکنے میں مدد اور لاکھوں لوگوں کو مرنے سے بچانے کے لیے افغان حکومت کے اربوں ڈالر کے منجمد فنڈز فوری طور پر جاری کیے جائیں"۔

پانچ لاکھ افغان کارکن ملازمتوں سے محروم ہو گئے

عالمی ادارہ محنت یا آئی ایل او کی جانب سے بدھ کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال اگست میں افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد سے اب تک پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ اپنی ملازمتوں سے محروم ہو چکے ہیں۔

آئی ایل او کا کہنا ہے کہ روزگار کے اس بحران نے معیشت کو مفلوج اور لیبر مارکیٹ کو تباہ کر دیا ہے۔ یہ صورت حال خاص طور پر خواتین، زرعی فارمنگ سے منسلک لوگوں، سرکاری ملازمتیں کرنے والوں، سماجی خدمات اور تعیمرات کے شعبوں سے وابستہ افراد کے لیے حوصلہ شکن ہے کیونکہ ان میں سے بہت کارکن اپنی ملازمتیں کھو بیھٹے ہیں یا انہیں تنخواہیں نہیں مل رہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے آئی ایل او کی رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ بہت سی کمپنیوں کے لیے اپنا کام جاری رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کیونکہ روزانہ ہزاروں افغان اپنا ملک چھوڑ کر فرار ہو رہے ہیں اور جون تک ملک سے نو لاکھ تک ملازمتیں ختم ہوسکتی ہیں۔

طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک میں نقدی کی قلت نے معیشت کے لیے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے کیونکہ بینکوں نے رقم نکلوانے کی حد مقرر کر دی ہے جس کا نقصان کمپنیوں اور عام افراد دونوں کو پہنچ رہا ہے۔

افغانستان کے معاشی بحران کے لیے فوری مدد درکار ہے، عالمی ادارہ محنت

عالمی ادارہ محنت کے افغانستان کے لیے سینئر کوآرڈینیٹر رامین بہزاد نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ "افغانستان کی صورت حال سنگین ہے اور اس کی بحالی اور استحکام کے لیے فوری مدد کی ضرورت ہے۔"

رپورٹ میں مزید کہا گیاہے کہ سال 2020 میں افغانستان میں ملازمتوں میں عورتوں کا حصہ لگ بھگ پانچ میں سے ایک تھا، لیکن طالبان کے آنے کے بعد صورت حال میں مزید بگاڑ پیدا ہوا ہے، کیونکہ بعض شعبوں میں انہیں کام کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ تعلیم کے حصول تک زیادہ تر لڑکیوں کی رسائی محدود ہو گئی ہے، تاہم اب طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ مارچ کے آخر تک لڑکیوں کے تمام اسکول کھول دیں گے۔

طالبان نے کہا ہےکہ مارچ کے آخر تک لڑکیوں کے تمام اسکول کھول دیے جائیں گے۔
طالبان نے کہا ہےکہ مارچ کے آخر تک لڑکیوں کے تمام اسکول کھول دیے جائیں گے۔

عالمی ادارہ محنت نے فوری بین الاقوامی مدد کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے تخمینوں کے مطابق 87 لاکھ افغان قحط کے دہانے پر ہیںِ۔

روزگار کے مسائل سے بچوں کی مشقت کا خدشہ

عالمی ادارہ محنت کی رپورٹ میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ملازمتوں کے مواقع کی قلت اور ابتری کی جانب بڑھتی ہوئی لیبر مارکیٹ کا خاص طور پر بچوں پر منفی اثر پڑے گا اور انہیں ایک ایسے ملک میں مشقت لینے کے لیے استعمال کرنے کے امکانات مزید بڑھ جائیں گے جہاں پہلے ہی پانچ سے 17 کی عمروں کے دس لاکھ سے زیادہ بچے محنت مزدوری کر رہے ہیں۔

سال 2019 اور 2020 کے دوران کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق ہر دس میں سے صرف چار افغان بچے اسکول جاتے ہیں۔

بیرون ملک کابل کے اثاثے، جن کا زیادہ تر حصہ امریکہ میں ہے، طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے منجمد ہیں، اور بین الاقوامی کمیونیٹی طالبان کو ایک حکومت کے طور پر تسلیم کرنے سے ہچکچا رہی ہے۔

(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG